ضم اضلاع کی سابقہ لیویز اور خاصہ دار فورس کو ترقی کا راستہ مل گیا
دربار کے دوران وعدہ کیا تھا جو پورا کرنے جا رہا ہوں۔ آئی جی اختر حیات گنڈاپور
محمد فہیم
خیبر پختونخوا پولیس نے ضم اضلاع میں عرصہ دراز سے سکیورٹی انجام دینے والے لیویز اور خاصہ دار فورس اہلکاروں کو ترقی دینے کیلئے سروس سٹرکچر کا مسودہ صوبائی حکومت کو ارسال کر دیا ہے جس کی منظوری کے بعد ان اہلکاروں کو ترقی کا راستہ مل جائے گا اور وہ اپنے عہدوں سے آگے بڑھ سکیں گے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور نے اس حوالے سے جاری اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ چارج سنمبھالتے ان اضلاع میں دربار کے دوران وعدہ کیا تھا جو پورا کرنے جا رہا ہوں۔ خیبر پختونخوا لیویز فورس ایکٹ 2019 اور خاصہ دار فورس ایکٹ 2019 کے تحت یہ اہلکار خیبر پختونخوا پولیس میں ضم ہوئے تھے تاہم تب سے اب تک ان اہلکاروں کو سروس سٹرکچر نہ دیے جانے پر ان کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ انہی عہدوں پر کام کر رہے ہیں جن پر موجود تھے۔
اختر حیات نے بتایا کہ پولیس قوانین برائے سروس سٹرکچر سابق لیویز و خاصہ دار فورس 2023 صوبائی حکومت کو منظوری کے لیے ارسال کر دیا گیا ہے جبکہ اس مسودے کی منظوری کے بعد سروس سٹرکچر رولز سے ان کی ترقی کی راہیں کھلیں گی اور جس دن سے لیویز و خاصہ دار کے پی پولیس کا حصہ ہیں ان کی سینیارٹیز تصور کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ آل فاٹا خاصہ دار اور لیویز فورس کی جانب سے حکومت کو 22 نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے گزشتہ برس صوبہ گیر احتجاج شروع کیا گیا تھا؛ پشاور سمیت تمام قبائلی اضلاع میں بھی احتجاج کیا گیا، اہلکاروں کا مطالبہ تھا کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ وہ آج بھی لیویز اور خاصہ دار ہیں یا پولیس کا حصہ بن چکے ہیں کیونکہ انہیں مراعات خیبر پختونخوا پولیس کی حاصل نہیں ہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات گنڈاپور کے ویڈیو بیان اور خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے بھیجے گئے مسودے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آل فاٹا خاصہ دار اور لیویز فورس کے فوکل پرسن حبیب اللہ نے بتایا کہ جب تک یہ مسودہ دیکھ نہ لیا جائے اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا تاہم اپنے ویڈیو بیان میں آئی جی پولیس نے کہا کہ جس روز سے لیویز اور خاصہ داروں کو شامل کیا گیا ہے اس روز سے ہم پولیس کا حصہ تصور ہوں گے، ایسے میں جتنی ہماری سروس ہے وہ کہاں گئی؟ ہمیں سروس سٹرکچر دینے کے ساتھ ساتھ جو وعدہ قانون میں کیا گیا وہ پورا ہونا چاہئے، ہم پولیس میں اپنے خاصہ دار اور لیویز والے تجربے کے ساتھ شامل ہوئے ہیں، ہماری سنیارٹی اسی روز سے تصور کی جائے۔
حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری پنشن سے لے کر مراعات تک اب صرف چند برس کی ہوں گی جو ہمارے حق میں نہیں ہے جب تک یہ مسودہ سامنے نہیں آتا ہم اسے تسلیم یا مسترد کرنے کا دعوی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بتا دیا، اس سے قبل بھی اس حوالے سے کئی مسودے محکمہ داخلہ بھیجے گئے لیکن پیچیدگیوں کے باعث عمل مکمل نہ ہو سکا۔
جنوری 2020 میں صوبائی حکومت نے لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کو خیبر پختونخوا پولیس میں ضم کر دیا تھا، سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد لیویز اور خاصہ دار فورسز کے تقریباً 28 ہزار اہلکاروں کی بھرتی حکومت کو درپیش سب سے مشکل مسائل میں سے ایک تھا۔
کابینہ نے پہلے مرحلے میں دونوں فورسز کے 23 ہزار اہلکاروں کو شامل کرنے کی منظوری دی اور ان میں سے 13 ہزار 229 خاصہ دار اور 9 ہزار 976 لیویز اہلکار تھے جبکہ باقی رہ جانے والے اہلکاروں کو دوسرے مرحلے میں ضم کر دیا گیا تھا۔
انضمام کے بعد سے اب تک جتنے بھی پولیس میں شامل ہونے والے لیویز اور خاصہ دار اہلکار شہید ہوئے انہیں شہدا پیکج نہیں دیا گیا اور نہ ہی زخمیوں کو باقی صوبے کی پولیس کے برابر مراعات حاصل ہیں۔ ان اہلکاروں کو پولیس کے برابر لانے کیلئے صوبائی حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوئے ان کی تربیت کی ہے اور اب ان کی تربیت مکمل ہونے کے کئی برس بعد ان کا صرف تین برس کا تجربہ تصور کیا جائے گا۔
اہلکاروں کے ضم ہونے کے تین برس بعد بھی قبائلی اضلاع میں تعینات اہلکار اس قانونی عمل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مبینہ طور پر تحقیقات اور ایف آئی آر درج کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
قبائلی پولیس کے پاس علاقے میں اختیار اور سنیارٹی کا فقدان ہے؛ باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں پولیس کے پاس اس فورس میں سے ڈی ایس پی رینک سے اوپر کا کوئی افسر نہیں ہے۔