”اگر جنگ زیادہ چلی تو ان دونوں کو قتل کر کے نکل جانا”
عبدالکریم
’15 اگست 2021 کو میں خضدار سے افغانستان روانہ ہوا اور 16 اگست کو میں نے پہلی رپورٹ کندھار ایئرپورٹ سے دی جو کہ 92 نیوز نے پرائم ٹائم میں بطور بریکنگ نیوز چلائی۔ سپین بولدک سے جب کندھار کی طرف جا رہے تھے تو ہمیں ہر چوکی پر اسلحہ بردار اہلکار روک کر پہلے سلام کرتے اور تعارف کے بعد سفربخیر اور دعائیہ الفاظ کے ساتھ اجازت دیتے، کندھار میں افراتفری کا عالم تھا، ہر جگہ طالبان کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں جبکہ کابل میں امریکہ بھی موجود تھا، ایئرپورٹ پر امریکہ کا قبضہ باقی جگہوں میں طالبان کا عمل دخل تھا۔’
یہ داستان 92 نیوز سے وابستہ اقبال مینگل کی ہے۔ مینگل کے مطابق جب افغانستان میں 15 اگست 2021 کو طالبان نے اقتدار سنبھالا تو انہیں ادارے کی طرف سے افغانستان پہنچنے کا حکم ملا، چونکہ افغانستان میں حکومت تبدیل ہو چکی تھی، افغانستان کی سفارت اور قونصلگری ویزے جاری نہیں کر رہے تھے تو وہ بنا سفری دستاویزات کے سپین بولدک میں اجازت نامہ لے کر 15 اگست کو ہی افغانستان میں داخل ہوئے۔
انہوں نے پہلی رپورٹ کندھار ایئرپورٹ سے 16 اگست 2021 کو دی جسے مختلف میڈیا ہاؤسز سے کافی پذیرائی ملی اور مختلف میڈیا ہاؤسز سے انھیں فون کالز موصول ہونے لگیں اور واٹس ایپ پر پیغامات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت وہ پہلے پاکستانی صحافی تھے جو ہمت کر کے اس جنگی صورتحال میں افغانستان پہنچے تھے، اس وقت افغانستان جانا انتہائی مشکل کام تھا جس کی بنیادی وجہ حالت جنگ اور طالبان کی جانب سے اچانک قابض ہونا تھا جس کی وجہ سے آمدورفت کے تمام ذرائع مسدود ہو گئے تھے، ”سرکاری دفاتر کو تالے لگے ہوئے تھے، سفارتی نظام مکمل طور غیرفعال ہو چکا اور پورا نظام تہس نہس ہو چکا تھا، افغانستان کے ایئرپورٹس بھی بند ہو گئے تھے لہذا کسی صحافی کا پہنچنا انتہائی مشکل تھا، افغانستان کا اپنا میڈیا انڈرگراؤنڈ ہو گیا تھا، عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندے افغانستان چھوڑ چکے تھے، جو رہ گئے تھے وہ طالبان کی جیل میں تھے یا پھر روپوش تھے اسی وجہ سے پورا فوکس میں تھا، اور چینل کی جانب سے کام میں تیزی لانے کا کہا جا رہا تھا، دو دن کندھار میں کام کیا تیسرے دن طالبان کی میڈیا ٹیم کی جانب سے کال آئی اور کندھار پریس کلب بلایا گیا، کندھار پریس کلب ایک بڑی عمارت میں سو کے قریب کمروں پر مشتمل تھا، بہت ہی خوبصورت عمارت اور کشادہ، اس جگہ چار بندوق بردار طالبان کے علاوہ کوئی نہیں تھا، صحافی طالبان کا سن کر چلے گئے تھے، قلم و قرطاس کا گھر بندوق برداروں کے نرغے میں تھا، اپنے صحافی برادری کو وہاں نہ پا کر ہم بوجھل دل کے ساتھ داخل ہو گئے، جہاں ویرانی اور وحشت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔”
اقبال مینگل کے مطابق افغانستان میں طالبان نے غیراعلانیہ طور پر رپورٹنگ پر پابندی عائد کر دی تھی، ”جو صحافی پریس کلب آئے وہاں طالبان کو دیکھ کر واپس چلے گئے، ہم بھی جلد ہی وہاں سے روانہ ہو گئے، طالبان کے شعبہ صحافت کو دیکھنے والے ذمہ داروں نے کندھار میں مزید کام کرنے سے منع کیا تو اگلے دن (17 اگست کو) ہم نے ہرات کے لیے رخت سفر باندھا، چونکہ وہاں کے نائب گورنر اور کمشنر سے ہم رابطے میں تھے اس لیے افغانستان کے تیسرے اہم صوبہ کو کوریج اور تحفظ کے حوالےسے موزوں سمجھا، 12 گھنٹے سفر کے بعد ہم ہرات پہنچے، وہاں ہماری رہائش سیکرٹریٹ میں تھی، سیکرٹریٹ میں تمام دفاتر بند تھے، ہرات میں دو ہفتے تک رپورٹنگ کی، اس دوران چینل کی جانب سے بار بار کابل پہنچے کا کہا جا رہا تھا تو ہم نے کابل جانے کا ارادہ کر لیا، ہرات کے کمشنر کے ذریعے طالبان کے بلوچ گروپ کے کمانڈر جو کہ کابل میں تھا اس سے ہم نے رابطہ کیا اور اجازت طلب کی تو ہمیں نہ صرف اجازت دی بلکہ رہائش وغیرہ کا ذمہ بھی انہوں نے اٹھا لیا، ہرات سے کابل تک دو دن کا سفر طے کر کے ہم عصر کے وقت جب کابل پہنچے تو دو گھنٹے بعد کابل دھماکے سے لرز اٹھا، کابل ایئرپورٹ پر پے درپے دو خودکش دھماکے ہوئے، مغرب کے وقت چینل کی جانب سے کال آئی کہ کیا صورتحال ہے، آٹھ بجے میں نے بیپر دیا اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے ایئرپورٹ یا پھر کسی ہسپتال جانے کی کوشش کرو، جب میں نے مقامی لوگوں سے معلومات کیں تو انہوں نے کہا کہ ایئرپورٹ کافی دور ہے وہاں نہیں جا سکو گے البتہ نزدیک مرکزی شفاخانہ (ہسپتال) ہے وہاں جا کر کچھ معلومات حاصل کر سکتے ہو، ہم تین ساتھی تھے، ایک ساتھی کو میں نے اپنے ساتھ اٹھا لیا اور ٹیکسی پکڑی، خوش قسمتی سے وہ ٹیکسی ڈرائیور کراچی میں وقت گزار چکا تھا اور اردو زبان سمجھتا تھا، وہ ہمارے ساتھ کافی خوش اخلاقی سے پیش آیا، اور خطرات سے بھی آ گیا، ہمیں ہسپتال پہنچایا، اس وقت کوئی تیس لاشیں ہسپتال لائی گئی تھیں، ہمیں کیمرے کے ساتھ دیکھ کر طالبان نے کوریج سے منع کیا، 9 بجے پرائم ٹائم بیپر دے کر میں واپس ہو گیا، ٹیکسی ڈرائیور بھی کہہ رہا تھا کہ زیادہ دیر نہ کریں، ان پر کوئی بھروسہ نہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہسپتال ہماری رہائشگاہ سے کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا، ٹیکسی والے نے جہاں سے اٹھایا تھا وہاں پر واپس ڈراپ کر دیا لیکن گنجان آبادی کی وجہ سے ہم راستے سے بھٹک گئے، گلیوں میں ادھر ادھر اپنی جگہ تلاش کرتے پھر رہے تھے کہ طالبان کی ایک چوکی نظر آئی تو ہم نے سوچا کہ ان سے معلومات لیتے ہیں، جب ایک اہلکار سے ہم نے پوچھا کہ فلاں دفتر کہاں ہے تو اس نے اپنے امیر کو بلایا کہ وہ آپ کو صحیح جگہ بتا سکتا ہے، جب ان کا وہ امیر آیا تو اس نے ہم سے مختلف سوالات پوچھے، اس دوران میرے ساتھی کا رابطہ بذریعہ واٹس ایپ اپنے میزبان سے ہوا تو میزبان نے لوکیشن ارسال کر کے گوگل میپ کے ذریعے آنے کو کہا، جب طالبان نے گوگل میپ دیکھا تو فوراً کہنے لگے کہ اچھا یہ تو ہمیں ٹریس کر رہے ہیں، مشکوک سمجھ کر انہوں نے ہماری تلاشی لی اور پاکستانی شناختی کارڈز دیکھ کر ہی آگ بگولہ ہو گئے کہ یہ تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں جو یہاں تک پہنچ گئے ہیں، اس کے بعد ہمارے اوپر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی، ہاتھ اور آنکھیں باندھ کر تشدد کرنے لگے، ہمیں گھسیٹ کر کسی کمرے میں لے گئے، اس دوران باہر اچانک فائرنگ شروع ہوئی تو وہاں پر موجود طالبان اس فائرنگ والی جگہ کی جانب دوڑے اور دو اہلکاروں کو ہماری نگرانی کےلیے چھوڑ دیا، طالبان کے امیر کی آواز سنائی دی کہ لگتا ہے یہ فائرنگ کرنے والے ان کے ساتھی ہیں، جو ان کو چھڑانے آئے ہیں، اگر جنگ زیادہ چلی تو پھر ان دونوں کو قتل کر کے نکل جانا، یہ باتیں سن کر ہم دم بخود رہ گئے، اس دوران مسلسل فائرنگ کی آواز آ رہی تھی، ایک طالبان سپاہی نے، جو ہماری نگرانی کر رہا تھا، موقع پا کر اپنے طور پر مجھ سے پوچھ گچھ شروع کی، اس کو اردو نہیں آتی تھی اور پشتو بھی انتہائی مشکل سے بول رہا تھا جو مجھے صحیح سمجھ نہیں آ رہی تھی، وہ وزیرستانی لہجے میں بات کر رہا تھا، اس نے کہا کہ یہاں کیوں آئے ہو اور تم لوگ پاکستان میں جہاد کیوں نہیں کرتے ہو، میں نے بتایا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے میں کوئی جہادی نہیں، وہ بندوق اٹھا کر زور زور سے مجھے مارنے لگا کہ بتاؤ جہاد کیوں نہیں کرتے ہو، اس کے وار اتنے شدید تھے کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب میری جان نکل جائے گی، پھر اس نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی سامان یا پیسہ ہے، میں نے کہا نہیں، آپ لوگوں نے تو میری جیب کی تلاشی لے کر سب کچھ نکال لیا ہے، اس نے شلوار کی جیب دیکھی تو کہا کہ اس میں کیا ہے وہ نکالو، میری شلوار کی جیب میں پچاس ہزار پاکستانی روپے تھے وہ اس نے نکال لیے، میرے پورے چہرے کو انہوں نے ڈھانپ لیا تھا جس سے میرا سانس لینا دشوار ہو گیا تو میں نے سانس لینے کی خاطر اس سے پانی مانگا، اس نے پانی کا گلاس لا کر میرے منہ میں ٹھونس دیا جس سے مجھے شدید تکلیف ہوئی۔”
اقبال کے بقول انہوں نے طالبان جیل میں گیارہ دن گزارے، ”جب گیارہویں دن طالبان کا ایک امیر جس کو رئیس پکارا جاتا تھا ان کو ہم نے اپنے دستاویزات دکھائے اور ان سے کہا کہ ہم آپ کے مہمان ہیں اور ہم یہاں رپورٹنگ کیلئے آئے ہیں، ہم نے بتایا کہ رپورٹنگ کیلئے جو ضابطہ دیا گیا ہے اس کی ہم نے کہاں خلاف ورزی کی، رئیس کا رویہ اچھا تھا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگوں کا کام ہو جائے گا، رئیس کی آمد کے بعد ہمیں ایک چٹھی دی گئی جس پر لکھا تھا، ‘ان کو تنگ نہ کیا جائے’، اس کے بعد ہمیں رہائی ملی اور ہم کابل سے سے کندہار اور وہاں سے براستہ چمن پاکستان پہنچے۔”
اقبال کے بقول وہ موت کے منہ سے نکل کر واپس پاکستان پہنچے، ان سب حالات کیلئے وہ تیار نہیں تھے، وہ بنا تربیت کے جنگ زدہ علاقے میں گئے جس کی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی تھی۔
اقبال کی طرح چمن سے تعلق رکھنے والے صحافی متین خان جو بطور رپورٹر خیبر نیوز سے وابستہ ہیں، اور ان کے ساتھی محمد علی جو متین خان کے کیمرہ مین ہیں، ان کو بھی افغانستان میں دوران ڈیوٹی طالبان نے گرفتار کیا تھا اور پھر تفتیش کے بعد چھوڑ دیا تھا اور وہ 27 اگست 2021 کو گھر واپس لوٹے۔
جمیل احمد کاکڑ ایک سینئر صحافی ہیں اور وائس آف امریکا پشتو سے وابستہ رہے ہیں، اس حوالے سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ صحافتی اداروں کو شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے اپنے نمائندوں کی تربیت لازمی کرنی چاہیے کیونکہ خبر سے پہلے صحافی کی زندگی اہم ہے، ‘بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحافیوں کو جان کے تحفظ کی تربیت فراہم نہیں کی جاتی ہے، اور نہ اس کو اہم سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاں خبر اور کیمرہ صحافی کی زندگی سے زیادہ اہم ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں کئی صحافیوں نے اپنی جانیں گنوا دیں لیکن اس کے باوجود صحافتی ادارے غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کی مثال طالبان کے آنے کے بعد بلوچستان کے متعدد صحافیوں کی افغانستان میں گرفتاری ہے، بلوچستان کے چار صحافی افغانستان میں گرفتار ہوئے جن میں دو چمن اور دو کا تعلق خضدار سے تھا، اداروں نے بریکنگ نیوز کے چکر میں بنا سفری دستاویزات اور تربیت کے انہیں ہنگامی بنیادوں پر افغانستان بھیجا جو عالمی سفری اور صحافتی قوانین کے منافی اقدام ہے لیکن ہمارے صحافتی ادارے ریٹنگ کیلئے کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔
جمیل کاکڑ کے مطابق جب وہ وائس آف امریکا کے ساتھ وابستہ تھے تو انھیں وار زون میں کام کرنے کی باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی، ‘اور ہم نے اس کی عملی مشق بھی کی، مذکورہ تربیت میری پیشہ ورانہ زندگی میں خود کو محفوظ رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔’
انڈیپنڈنٹ اردو سے وابستہ ہزار خان بلوچ نے بتایا کہ صحافی کی زندگی صرف خبر تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے پورے خاندان کی زندگی وابستہ ہوتی ہے، جب تک صحافی محفوظ اور زندہ ہے خبریں وہ نکالتا رہے گا، اگر خدانخواستہ کسی صحافی نے کسی خبر کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہ اس خبر کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو وہ خبر اور صحافی کی زندگی وہی تک محدود ہو کر رہی گئی پھر وہ کبھی بھی کوئی اورخبرنہیں دے سکے گا، اس بابت نہ صرف صحافی کو سوچنا چاہیے بلکہ اداروں کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے۔
ہزار خان کے بقول شورش زدہ علاقے میں صحافی کو بنا تربیت کے رپورٹنگ کیلئے بھیجنا خودکشی کے مترادف ہے، ایک تو صحافی کی زندگی ویسے مشکل ہوتی ہے، ان کی تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اور اوپر سے اسے وقت پر تنخواہ بھی نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے، ساتھ میں اسے بنا تربیت کے ایسی جگہ رپورٹنگ کیلئے بھیج دیا جاتا ہے جہاں اس کی جان کو خطرہ ہو تو وہ اور ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی صحت ہمیشہ کیلئے خراب ہو جاتی ہے۔
نوٹ: یہ رپورٹ پی پی ایف فیلوشپ پروگرام کا حصہ ہے۔