سیلاب سے مگس بان بھی پریشان، حکومت تاحال خاموش تماشائی
انور خان
گزشتہ سال اگست میں ہونے والی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے بیشتر حسوں میں تباہی مچائی تھی، کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تو مال مویشیوں سمیت سرکاری و غیرسرکاری املاک کو بھی بر طرح نقصان پہنچا تھا۔
ان بارشوں اور سیلا کی وجہ سے ملک کی تین کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی تو ساتھ ہی ساتھ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے افراد اور مختلف قسم کے کاروبار بھی بری طرح سے متاثر ہوئے، انہی کاروباروں میں سے ایک مگس بانی بھی ہے، اس کاروبار سے وابستہ افراد کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا ہے کیونکہ سیلاب ان کی مکھیاں بہا لے گیا تھا۔
بارشوں اور سیلاب سے مگس بانوں کو پہنچنے والے نقصانات اور حکومت کی جانب سے ان کے ازالے کے لئے ممکنہ اقدامات بارے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ٹی این این کی ٹیم نے پشاور میں قائم ایشیاء کی سب سے بڑی شہد مارکیٹ کا دورہ کیا اور وہاں پر موجود اس کاروبار سے وابستہ افراد کے ساتھ بات چیت کی۔
اس موقع پر عبیداللہ نامی ایک متاثرہ مگس بان نے اپنی بپتا کچھ اس طرح بیان کی، ”ہماری مکھیاں ادھر پشاور میں تھیں، ہم انہیں صوابی لے کر گئے اک شہ زور گاڑی میں، رات جب لڑکے واپسی کر رہے تھے تو صبح بارش ہونے لگی، بارش چونکہ بہت زیادہ تھی تو پانی میں سو پیٹیاں ہماری خراب ہو گئیں، فارم پر ہمارا قریباً 10، 12 لاکھ روپے خرچہ آیا تھا تو وہ بھی سارا ختم ہوا اور پیٹیاں بھی ضائع ہو گئیں لہٰذا زیادہ نہیں تو ایک فارم میں ہمیں 15 سے 20 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔”
حکومت نے مگس بانوں کے لئے کوئی خاص اعلان کیا تھا، اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے عبیداللہ نے بتایا، ”لوگ تو بہت سارے آئے اور چلے بھی گے لیکن تاحال کسی بھی جانب سے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا، تقریباً تین سے چار سو تک فارم خراب ہوئے ہیں، سارے لوگ غریب تھے اور سب مکھیاں ضائع ہوئیں لیکن اب تک حکومت نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔”
اس موقع پر موجود آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسو سی ایشن خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری شیر زمان نے عبیداللہ کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے بتایا، ”اب تک 124 شکایات آئی ہیں، یہ ایسے افراد ہیں کہ جن میں سے کسی کے پاس 200 بکسے/پیٹیاں ہیں کسی کے پاس پانچ سو بکسے ہیں تو کسی کے پاس تین سو بکسے ہیں، ٹوٹل کوئی 22 ہزار 736 پیٹیاں جو ہیں وہ پانی نے متاثر کی ہیں بلکہ پانی انہیں بہا کر لے گیا ہے، دوسرے ایسا ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ رابطہ کیا ہے، انہیں باقاعدہ ٹیلی فون کالز کی ہیں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ آپ ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ رابطہ کریں، لیکن جب ان کے ساتھ ہماری بات ہوتی ہے تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ہماری پالیسی میں نہیں ہے کہ ہم مگس بانوں کو پہنچنے والے نقصانات کا ہم ازالہ کریں گے۔”
اب ان کا کیا لائحہ عمل ہے کہ وہ یہ پیسے کس طرح ‘کلیم’ کریں گے، اس سوال کے جواب میں شیر زمان نے بتایا، ”حکومت کو چاہئے کہ ان لوگوں کو اپنے پاؤں پے کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے اور اگر خدانخواستہ یہ انڈسٹری بھی ختم ہو جائے تو ویسے بھی بے روزگاری لوگ مزید بے روزگار ہو جائیں گے۔
مگس بانوں کی تنظیم نے بھی حکومت اور نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ سے یہ مطالبہ کیا کہ ان کے کاروبار کو بھی لسٹ کا حصہ بنایا جائے اور ان کے لئے معاوضہ مقرر کیا جائے۔