لائف سٹائل

پاکستان اور شدت پسندی: 2001 سے 2023 تک

حسام الدین

ملک بھر میں ایک بار پھر سے شدت پسندی نے سر اٹھا لیا ہے؛ 2023 کے ماہ جنوری میں ہی دہشت گردی کے حملوں کے 8 واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں خودکش حملہ آور، پولیس سٹیشنوں پر ہینڈ گرنیڈ اور بھاری اسلحہ سے حملوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ 2017 کے بعد پاکستان میں شدت پسندی کی لہر میں بتدریج کمی آ چکی تھی جس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں 2001 سے 2023 تک دہشت گردی کے 19728 حملے ہو چکے ہیں جن میں 41570 عام شہری، پولیس اہلکار، فوجی جوان، حساس اداروں کے افسران، خا صہ دار اور ایف سی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 61575 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان، پرائی جنگ اور دہشت گردی کا آغاز

پاکستان سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق 9/11 کے فوری بعد پاکستان شدت پسندی کی زد میں آ گیا جس کا آغاز اکتوبر میں پنجاب کے علاقے بہاولپور کی ایک چرچ میں دھماکے سے کیا گیا جس میں 19 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوئے، دوسرے واقعہ میں وزیر داخلہ لیفٹنٹ جنرل (ر) معین الدین کے بڑے بھائی احتشام حیدر کو کراچی میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔

2001 میں شدت پسندی کے ان دو حملوں میں 20 افراد قتل اور 10 افراد زخمی ہوئے۔ 2002 میں کراچی اور راولپنڈی میں شدت پسندی کے 14 واقعات میں 60 افراد جاں بحق اور 150 زخمی، 2003 میں شدت پسندی کے 8 حملوں میں 50 افراد جاں بحق جبکہ 150 زخمی ہوئے۔

2004 میں کوئٹہ، لاہور، ملتان، سیالکوٹ، ڈی آئی خان، قلات، کراچی اور گوادر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں شدت پسندی کے 19 واقعات میں 203 افراد جاں بحق اور 550 کے قریب زخمی ہوئے۔

2005 میں اسلام آباد، گلگت، بلوچستان، مکین وزیرستان، کراچی، لاہور اور جندول میں شدت پسندی کے 254 حملوں میں 216 افراد جاں بحق اور 571 زخمی ہوئے۔

2006 میں شدت پسندی کے 657 حملوں اور فرقہ واریت کے نام پر 41 واقعات میں 907 افراد جاں بحق اور 1543 زخمی ہوئے۔

2007 میں شدت پسندی، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے 1503 واقعات رونما ہوئے، ان میں 60 خودکش حملے شامل ہیں جن میں 3448 افراد جاں بحق اور 5353 افراد زخمی ہوئے۔

2008 میں شدت پسندی کے 2577 واقعات اور 67 خودکش حملوں میں 7997 افراد جاں بحق اور 9670 افراد شدید زخمی ہوئے۔

2009 میں شدت پسندی، فرقہ واریت، آپریشن حملوں کے 3816 واقعات رونما ہوئے جن میں 12632 افراد جاں بحق جبکہ 12815 افراد شدید زخمی ہوئے۔

2010 میں ملک بھر کے مختلف شہروں میں شدت پسندی، ڈرون اور دیگر حملوں کے 2113 واقعات رونما ہوئے جن میں 2913 جاں بحق اور 5824 افراد زخمی ہوئے۔

2011 میں صوبہ کے پی، بلوچستان، پنجاب، کراچی، گلگت بلتستان، کشمیر اور اسلام آباد میں دہشت گردی کے 1966 واقعات رونما ہوئے جن میں 2391 افراد جاں بحق جبکہ 4389 افراد شدید زخمی ہوئے۔

2012 میں شدت پسندی کے 1577 حملوں میں 2050 افراد جاں بحق اور 3822 زخمی ہوئے۔

2013 میں شدت پسندی کے 1717 حملوں میں 2451 افراد جاں بحق جبکہ 5438 زخمی ہوئے۔

2014 میں شدت پسندی کے 1206 حملوں میں 1723 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 3143 افراد زخمی ہوئے۔

2015 میں ملک بھر میں شدت پسندی کے 625 حملوں میں 1069 افراد جاں بحق جبکہ 1443 افراد زخمی ہوئے۔

2016 میں شدت پسندی کے 441 حملوں میں 908 افراد جاں بحق جبکہ 1627 زخمی ہوئے۔

2017 میں شدت پسندی کے 370 حملوں میں 815 افراد جاں بحق جبکہ 1736 افراد زخمی ہوئے۔

2018 کے شدت پسندی 262 حملوں میں 595 افراد جاں بحق جبکہ 1030 افراد زخمی ہوئے۔

2019 میں شدت پسندی کے 229 حملوں میں 357 افراد جاں بحق جبکہ 729 افراد زخمی ہوئے۔

2020 میں شدت پسندی کے 146 حملوں میں 220 افراد جاں بحق جبکہ 547 افراد زخمی ہوئے۔

اسی طرح 2021 میں شدت پسندی کے 207 واقعات میں 335 افراد جاں بحق اور 555 افراد زخمی ہوئے۔ ہلا ک ہونے والوں میں 177 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے جبکہ 126 عام شہری اور 32 شدت پسند تھے۔

2022 میں شدت پسندی کے 17 واقعات رونما ہوئے میں جن میں 145 افراد جاں بحق جبکہ 321 افراد زخمی ہوئے۔ اسی سال کے آخری مہینے میں سی ٹی ڈی سنٹر بنوں میں شدت پسندوں نے موقع پا کر حملہ کیا جس میں 25 شدت پسند اور 2 آفیسرز جاں بحق ہوئے جبکہ 2022 کے آخری عشرے میں پاک فوج کے پانچ جوانوں کو ایک دھماکے میں شہید کر دیا گیا۔

رواں سال کے پہلے ماہ میں اب تک شدت پسندی کے آٹھ واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں پنجاب کے شہر خانیوال میں حساس ادارے کے 2 افسران کو شدت پسندوں نے گولی مار کر قتل کیا، پشاور کے علاقے سربند پولیس سٹیشن پر شدت پسندوں نے حملہ کر کے ڈی ایس پی سمیت تین پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا، چارسدہ میں 3 افسران کو گولی مار کر جبکہ بلوچستان کے پنجگور ضلع میں ایران کے بارڈر پر جھڑپ میں 4 جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔

رواں برس جنوری کی 19 تاریح کو صوبہ میں ضم ہونے والے خیبر ضلع میں ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کر کے 3 پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا۔ بلوچستان کے ضلع کچ کے بم دھماکے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے۔

جنوری کے آخر میں پشاور پولیس کو نشانہ بناتے ہوئے پشاور پولیس لائنز کے اندر واقع مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں 102 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ دو سو کے قریب اہلکار زخمی ہوئے۔ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں شدت پسندوں کے حملے کے ایک روز بعد میانوالی کے پولیس سٹیشن پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تاہم جوابی کاروائی پر شدت پسند پسپا ہو گئے۔

پاکستان میں امن کی بحالی کا خواب

ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2013 میں پاکستان میں شدت پسندی کے تقریباً چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020 میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے، ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروپوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ملک میں شدت پسندوں کی موجودہ کاروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور شدت پسند گروہ ملک بدر کر دیئے گئے ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان میں شدت پسندی کی لہر میں 2017 کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی، اس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس دوران ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے نتائج

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔ سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں اس تبدیلی کا تعلق ایسے گروہوں سے تھا جن کے بارے میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ گروپ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں جو پاکستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

حکومت اور پاک فوج کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ان گروہوں کی پشت پناہی بھی کی جا رہی ہے جس کے لئے کبھی براہ راست تو کبھی بلاواسطہ انڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں دو مختلف آرا پائی گئیں۔ ماہرین کا اندازہ تھا کہ طالبان حکومت کی مدد سے پاکستان میں شدت پسندی کا مکمل خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی جبکہ دوسری جانب کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ اس سے پاکستان میں شدت پسندی کو مزید تقویت ملے گی۔

2021 میں دہشت گردی میں اضافہ

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قیدیوں کو جب افغانستان کی جیلوں سے رہائی ملی تو 2021 میں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں شدت پسندی کے واقعات رونما ہوئے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 335 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 555 افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں 177 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جب کہ 126 عام شہری اور 32 شدت پسند شامل تھے۔ 2020 کے مقابلے میں شدت پسندی میں تقریباً 42 فیصد میں اضافہ ہوا۔

ان حملوں میں سے 128 کارروائیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، مقامی طالبان گروپس بھی ملوث تھے۔ 2020 میں ان گروپس نے مجموعی طور پر 95 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے واضح الفاظ میں طالبان کا قلع قمع کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری جانب واضح طور پر پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ سابقہ وفاقی حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور سابقہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا کہ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں، اس وقت طالبان کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی اور جنگ بندی کے اعلانات بھی سامنے آئے لیکن یہ مذاکرات جلد ہی ناکام ہو گئے جس کے بعد طالبان کی جانب سے نو دسمبر 2021 کو جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی ایک پریس کانفرنس میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے اور طالبان کے خلاف آپریشنز جاری رکھتے ہوئے انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے اثرات صاف ظاہر ہیں؛ رواں برس گزشتہ ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے 8 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ شدت پسندی کی موجودہ لہر میں صرف تحریک طالبان ہی نہیں بلکہ اور بھی شدت پسند گروہ شامل نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں امن کیسے، دہشت گر دی کی لہر کب تک جاری رہے گی؟

پشاور میں مقیم جنگ اور شدت پسندی پر خاص نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار رسول داوڑ کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ افغانستان کے متعلق فارن پالیسی میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے جس کے بعد خطے میں امن آئے گا، ‘ڈائیلاگ کے ذریعے افغان حکومت کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کئے جائیں، بارڈرز کو سیکیور کیا جائے، فورسز کو ویل ایکویپٹ کیا جائے، علما ء کرام کو کھل کر منظر پر آنے والے فتوؤں کی تائید کرتے ہوئے بیانات جاری کرنے چاہئیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے واقعات میں کمی بیشی کا سلسلہ نیا نہیں بلکہ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے، ایسی لہریں پہلے بھی آئیں اور ختم ہو گئیں لیکن ہر لہر کے پیچھے چند عوامل ضرور ہوتے ہیں جنھیں سمجھنا ضروری ہے، کالعدم تحریک طالبان کو ایک جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد آزادی اور حوصلہ ملا تو دوسری جانب 11 مختلف گروہ موجودہ سربراہ مفتی نور ولی ابو عاصم محسود کی قیادت میں دوبارہ اکھٹے ہو گئے ہیں۔

انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی ابو عاصم محسود کی سربراہی میں دوبارہ متحد اور مضبوط ہوئی جس کے بعد پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔

رسول داوڑ کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کا سلسلہ افغانستان سے منسلک سابقہ قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان، باجوڑ اور دیر سے شروع ہوا مگر بتدریج ان کا دائرہ کار خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع سمیت پنجاب اور بلوچستان کے شہری علاقوں تک بڑھا ہے، ”کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے اپنی جنگ کو پاکستان میں فقط سیکورٹی فورسز اور حکومت کے بعض اہداف تک محدود رکھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں عوام کے جانی و مالی نقصانات سے ان کی تنظیم کو عوامی سطح پر جس تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کا سدباب کیا جا سکے۔

تحریک طالبان سے مذاکرات کامیاب کیوں نہ ہو سکے؟

افغانستان میں ٹی ٹی پی پر پُراسرار حملے اور ردعمل کے نتیجے میں جہاں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا وہیں افغانستان میں بھی ایسے واقعات پیش آئے جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماوں کو نشانہ بنایا گیا۔

رسول داوڑ پاکستان میں شدت پسندی کی تازہ لہر کو ان پراسرار واقعات سے بھی جوڑتے ہیں جن کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔ ان کے مطابق افغانستان کے کنڑ کے علاقے میں ہی ٹی ٹی پی کے فقیر محمد پر ڈرون حملہ ہوا، سوات طالبان کے مفتی برجان پر حملہ ہوا اور بعد میں خالد بلتی قتل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ حالیہ لہر شدت پسندی کی ایک بڑی لہر ہے اور عین ممکن ہے کہ اس میں کمی آ جائے لیکن مکمل طور پرشدت پسندی کو ختم کرنا مشکل ہو گا، افغانستان میں طالبان ٹی ٹی پی کو ختم نہیں کریں گے کیوںکہ یہ 20 سال سے ساتھ ہیں جبکہ ٹی ٹی پی نے ان کا بہت ساتھ دیا ہے، معاملہ یہ ہے کہ طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لیے اسی وجہ سے حمایت ہے اگر اوپر کی سطح پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی گئی۔

داوڑ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں تیزی کو مذاکرات میں ناکامی کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، ذرائع کے مطابق حال ہی میں افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے ایک وفد نے افغانستان میں ملاقات کی ہے جو پاکستان کی حکومت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان اور سیکیورٹی فورسز کے مابین مکمل طور جنگ جاری ہے لیکن مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کیلئے عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ ٹی ٹی پی سے منسلک سب کو معاف معاف کر سکتے ہیں لیکن سرینڈر کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ جولائی 2021 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی سکیورٹی رپورٹ کے مطابق اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔

پاکستانی حکومت، فوج اور طالبان کے درمیان معاہدے یا مذاکرات پہلی بار ناکام نہیں ہوئے

پاکستان نے کئی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ تحریری اور بعض اوقات غیرتحریری معاہدے کیے۔ ان میں تین بڑے معاہدے سوات اور جنوبی وزیرستان میں کیے گئے تھے۔ ان تمام معاہدوں یا مذاکرات کے وقت ان علاقوں میں ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی تھی، فوج کو بھاری نقصان کا سامنا تھا لہٰذا حکومت کی پوزیشن نہایت کمزور اور شدت پسند تنظیموں کا پلڑا بھاری تھا۔

دوسرا یہ کہ تقریباً تمام معاہدے ناکام ثابت ہوئے اور ان کے نتیجے میں شدت پسند تنظیموں کو نہ صرف ان علاقوں میں قدم جمانے کا موقع ملا بلکہ ان تنظیموں نے دیگر علاقوں میں بھی پھیلنا شروع کر دیا۔

شکئی امن معاہدہ

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن’ کے مطابق کہ 24 اپریل 2004 کو شکئی امن معاہدہ ہوا جو پاکستان مخالف شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان اپنی طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔ معاہدہ جنوبی وزیرستان میں نیک محمد اور حکومت کے درمیان طے پایا۔

لیفٹیننٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی کی کتاب ‘بیانڈ تورا بورا’ کے مطابق پاکستانی فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین نے 27 سالہ نیک محمد سے ملاقات کی۔

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن کے مطابق اس ‘معاہدے سے قبل پاکستانی فوج نے وہاں اس وقت امریکہ کے دباؤ پر کلوشہ آپریشن شروع کیا جب افغانستان سے القاعدہ سے منسلک غیرملکی جنگجو منتقل ہوئے تاہم فوج کو آپریشن میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جس کے بعد بات چیت کا فیصلہ کیا گیا۔

‘ڈائریکٹوریٹ ایس’ کے مصنف اسٹیو کول نے لکھا ہے کہ نیک محمد پر الزام تھا کہ ان کی پناہ میں غیرملکی جنگجو تھے جو افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے تھے۔ بعض رپورٹس کے مطابق اس وقت یہ تعداد چار سو تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ نیک محمد کی پناہ میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عرب اور ازبک، چیچن اور افغان جنگجو تھے جبکہ افغان طالبان سے منسلک افراد بھی شامل تھے یہی وجہ ہے کہ نیک محمد پہلے ہی امریکہ کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

ڈائریکٹوریٹ ایس کے مطابق اس سے قبل 2003 میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا تو امریکہ کی خفیہ ایجنسی نے انہیں بتایا کہ اس حملے میں نیک محمد کا ہاتھ ہے۔ اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف نے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے ملاقات کی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ نیک محمد کے خلاف آپریشن کریں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو انھیں مارنا پڑے گا ورنہ یہ ہمیں مار دیں گے۔

پاکستان نے آپریشن میں موثر نتائج حاصل نہ ہونے پر نیک محمد کو مذاکرات کی پیشکش کی جسے نیک محمد نے قبول کیا۔

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن’ میں اس معاہدے کی شقوں سے متعلق لکھا گیا ہے کہ شکئی امن معاہدے کے مطابق پاکستان نے یہ شرط قبول کی کہ وہ نیک محمد کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے گا جبکہ فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے نقصان کے ازالے کیلئے مقامی افراد جن میں جنگجو شامل ہیں، ان کو رقم دی جائے گی، معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے شدت پسندوں کو رقم دی گئی تاکہ وہ القاعدہ سے لیا گیا قرض واپس کر سکیں۔

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن’کے مطابق کہ نیک محمد سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ غیرملکی جنگجوؤں کی تفصیل دیں گے اور افغانستان میں حملے بند کریں گے جبکہ معاہدے پر دستخط کے بعد نیک محمد نے غیرملکی جنگجووں کو فوج کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن’میں لکھا ہے کہ 2004 میں ہونے والے شکئی امن معاہدے نے القاعدہ اور قبائلی علاقوں میں ان کے اتحادیوں کو مضبوط کیا اور انہیں وہ مقام حاصل ہوا جو ایک جنگ کے لئے چاہیے تھا۔ جنوبی وزیرستان میں محسود اور وزیر قبائل پر قابو حاصل کرنے کے بعد اب انہیں ایک آپریشنل بیس حاصل ہو چکا تھا اور شکئی معاہدہے پر دستخط ہونے کے بعد ہی ختم ہو گیا اور فوج نے اسی سال جون میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔

‘ڈائریکٹوریٹ ایس’ کے مصنف اسٹیو کول نے نیک محمد کی ہلاکت کے بارے میں لکھا ہے کہ ٹھیک ایک ماہ بعد جب نیک محمد اپنے اس سیٹلائٹ فون پر کسی سے گفتگو کر رہے تھے جس پر وہ ریڈیو کو انٹرویو دیا کرتے تھے، امریکی حکام نے اس کال کو انٹرسیپٹ کیا اور اس وقت وزیرستان کے اوپر موجود ڈرون سے ‘ہیل فائر’ نامی میزائل فائر کر کے نیک محمد کو ختم کر دیا گیا۔

سراروغہ امن معاہدہ

‘انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن’ میں تحریر ہے کہ فروری 2005 میں جنوبی وزیرستان میں ہی سراروغہ میں میں امن معاہدہ ہوا۔ یہ معاہدہ تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا جو چھ شقوں پر مشتمل ہے۔

معاہدے کے مطابق ”بیت اللہ محسود نے حکومتی اہلکاروں اور دفاتر پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یہ بھی کہ وہ غیرملکی شدت پسندوں کو پناہ فراہم نہیں کریں گے، اس کے بدلے میں ان کیلئے ساتھیوں سمیت معافی کا اعلان کیا گیا۔”

اس معاہدے کا بنیادی مقصد طالبان کا شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں کی جانب پھیلاو روکنا تھا مگر یہ مقصد حاصل نہ ہو سکا اور تحریک طالبان مضبوط تر ہوتی گئی۔ معاہدہ ناکام ہونے سے طالبان اور فوج کے درمیان کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا جبکہ شہری علاقوں میں خودکش حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جبکہ طالبان کا اثر رسوخ تمام قبائلی علاقوں میں پھیل چکا تھا۔

اسی دوران بیت اللہ محسود کی سرپرستی میں ان علاقوں میں موجود کئی گروہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوج نے اس دوران آپریشن ‘ٹرائی سٹار’، جس میں پاکستان کی تمام مسلح افواج شامل تھیں، کے تسلسل میں جنوری 2008 میں آپریشن زلزلہ کا آغاز کیا۔

سٹیو کول نے بھی اپنی کتاب ‘ڈائریکٹوریٹ ایس’ میں اس آپریشن کا ذکر کیا ہے۔ بیت اللہ محسود آخرکار اگست 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے مگر وہ حکیم اللہ محسود کیلئے ایک نہایت مضبوط تحریک طالبان پاکستان چھوڑ گئے۔

آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق فوج نے بعد میں یہاں آپریشن راہ نجات جیسے آپریشنز بھی شروع کیے اور علاقے کو کلیئر کرنا شروع کیا۔ شکئی کے بعد دوسرا بڑا معاہدہ سرا روغہ بھی ناکام ہوا۔

سوات امن معاہدہ

تیسرا معاہدہ سوات میں مئی 2008 میں ہوا۔ سوات میں 2001 میں ہی شدت پسندی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شدت پسندی دوبارہ شروع ہونے کے بعد بالآخر فوج نے سوات میں آپریشن راہ حق کا آغاز کیا جہاں ملا فضل اللہ اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی جو سوات سمیت پورے ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ملا فضل اللہ حکومت اور فوج کے خلاف ایف ایم ریڈیو پر خطبے دیتے، طالبات کو سکول جانے سے منع کرنے، سرکاری دفاتر اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے سے نہیں کتراتے تھے۔

2008 میں خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سوات کے حالات قابو میں کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کی جائے۔ 2008 میں 16 نکات پر مشتمل معاہدہ طے پایا تاہم معاہدے کے چند دن بعد ہی ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستانی فوج پہلے اس علاقے سے نکلے اور ان کے گرفتار ساتھیوں کو پہلے رہا کیا جائے۔ بالآخر فوج نے آپریشن راہ حق کا آغاز کیا۔

خیبر پختونخوا حکومت نے فروری 2009 میں سوات میں طالبان کی شریعت پر مبنی ‘نظام عدل’ ‘کے نفاذ کو مان لیا جس پر ملا فضل اللہ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ اس دوران ملا فضل اللہ کے زیرقیادت طالبان مزید طاقتور ہو چکے، انہوں نے مینگورہ، شانگلہ ڈسٹرکٹ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ حکومت اور فوج نے آپریشن راہ راست کا اعلان کیا۔

ملا فضل اللہ اپنے کئی ساتھیوں سمیت سوات سے سابق فاٹا فرار ہو گئے جبکہ ان کے دیگر ساتھی ہلاک ہو گئے اور بعض گرفتار کر لئے گئے تاہم یہ معاہدہ بھی ناکام ہو گیا۔

جنگ کے دوران بھی پاکستانی فوج نے مقامی افراد جو طالبان کے ہمراہ فوج کے خلاف لڑ رہے تھے، ان کیلئے عام معافی کا اعلان کیا۔ اسی موقع پر ان کیلئے فوج نے ڈی ریڈیکلائزیشن مراکز قائم کیے اور ان کی نئے سرے سے تربیت کی گئی۔

ملا فضل اللہ نے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، میجر جنرل ثنا اللہ اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی، وہ افغانستان فرار ہوئے اور صوبہ کنڑ میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے۔

غیرتحریری معاہدے

کئی ایسے معاہدے بھی ہیں جو تحریری طور پر نہیں کیے گئے۔ ان معاہدوں کی شرائط لگ بھگ انہی تین بڑے معاہدوں کی طرز پر رہیں۔

ان معاہدوں کا مقصد عام طور پر کسی بھی علاقے میں شدت پسندوں کے چھوٹے گروہ کی کاروائیوں کو روکنا تھا تاکہ اس دوران خود فوج کو وقت مل سکے کہ وہ منصوبہ بندی کرے۔ بعض اوقات ان کا مقصد ان گروہوں سے ہتھیار چھڑوانا تھا تاہم ان میں سے بھی بیشتر ناکام رہے۔

ایسے ہی غیر تحریری معاہدوں میں سے ایک سراروغہ کی طرز پر شمالی وزیرستان میں کیا گیا۔ ایسا ہی ایک متنازعہ معاہدہ 2006 میں حافظ گل بہادر کے ساتھ کیا گیا۔ حافظ گل بہادر شوری مجاہدین گروپ کی سربراہی کر رہے تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام تھا۔

”انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن” میں لکھا ہے کہ یہ انہی گروہ میں سے ایک ہیں جن کے لئے ‘گڈ طالبان’ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کی طرح یہ بھی امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے، حکومت نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ افواج اور شہریوں کیخلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ 2008 میں دوبارہ کیا گیا جس کی رو سے فوج کے خلاف کارروائیاں روک دی گئیں۔

شمالی وزیرستان میں 2014 میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک رہے ہیں اور پہلے پاکستانی فوج سے نمٹیں گے۔

خیال رہے کہ یہ وہی گروپ ہے جس نے سابقہ وزیراعظم کی جانب سے طالبان سے بات چیت کے حالیہ بیان کے بعد سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور امن معاہدہ خیبر ڈسٹرکٹ میں لشکر اسلام (منگل باغ) اور انصار الاسلام (قاضی محبوب) گروپس کے ساتھ بھی کیا گیا۔ یہ معاہدہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور ان گروپس کے خاتمے کے لیے آپریشن صراط مستقیم شروع ہوا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button