باجوڑ کی ”دیوار مہربانی” اب ایک تحریک بن چکی ہے
محمد بلال یاسر
کچھ عرصہ پہلے باجوڑ تحصیل سلارزئی کے علاقے میں شروع ہونے والی ‘دیوارِ مہربانی’ مہم اب باجوڑ کے مختلف شہروں میں پہنچ کر تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
اس تحریک کے روح رواں جواد اقبال سلارزئی، جو کہ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر اور کنٹریکٹر ہے، نے بتایا کہ ڈیڑھ دو ہفتے قبل جب باجوڑ میں سردیاں اپنے عروج پر تھیں وہ گھر سے جیسے ہی مین روڈ پر پہنچے تو اپنے گاؤں کے ایک مزدور کو دیکھا جو نہایت پریشان حال بیٹھا ہوا تھا، ”میں نے حالات کو بھانپتے ہوئے قریب جا کر بار بار پوچھا تو معلوم ہوا کہ کئی دن سے اس کی دیہاڑی نہیں لگی اور گھر میں فاقے پڑنے لگے ہیں۔
جواد اقبال نے بتایا کہ انہوں نے فوراً اپنی بساط کے مطابق کچھ راشن لے کر اس کے گھر گئے مگر وہاں بات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی، ”گھر کے پاس اس کے بچوں کو دیکھا کہ سخت سردی میں بھی بچوں کے جوتے نہ تھے، کپڑے نہایت کمزور تھے، میں سوچنے لگا کہ یہ مزدور جو کہ اپنے گھر کیلئے راشن خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تو جوتے وغیرہ کیا خرید پائے گا کیونکہ یہ تو ثانوی ترجیح ہے۔”
”میں نے اسی وقت فیصلہ کیا، گھر سے کچھ رقم لی اور چکدرہ جا کر 27000 روپے کی ذاتی رقم سے کچھ نئے اور کچھ پرانے گرم کپڑے، جوتے اور دیگر چیزیں خرید لیں اور اس کے ساتھ ہی فیس بک پر پوسٹ کی کہ جو اس میں تعاون کرنا چاہتا ہو وہ اپنے زائد کپڑے، جوتے، بنیان وغیرہ ہمیں دیں، تلی چوک میں لگنے والی پہلی دیوار مہربانی کیلئے ہماری پاس بہت زیادہ چیزیں جمع ہو چکی تھیں۔” جواد اقبال نے بتایا
انہوں نے بتایا کہ اس دیوار کا مقصد معاشرے میں مہربانی کے تصور کو عام کرنا اور ضرورت مندوں خاص طور پر بے گھر افراد کی ضرورت بنا مانگے پوری کرنا ہے، دیوارِ مہربانی کا نعرہ ہے "اگر آپ کو ضرورت نہیں تو چھوڑ جائیے اور اگر ضرورت ہے تو لے جائیے۔”
"دیوارِ مہربانی” وہ دیوار ہے جہاں عام افراد عطیہ کردہ کپڑے اور جوتے چھوڑ جاتے ہیں اور ضرورت مند اپنی ضرورت اور پسند کے مطابق وہاں سے چیزیں اٹھا لیتے ہیں۔
جواد نے بتایا کہ ہماری اس دیوار مہربانی کو اس قدر پذیرائی ملی کہ باجوڑ کے کئی دوسرے شہروں میں ایسی دیواریں بنائی گئیں، ”ہماری نگرانی میں کل 9 مقامات پر اس کا انعقاد ہوا اور اب تک اس سے 18000 افراد مستفید ہو چکے ہیں۔”
الطاف سلارزئی جو کہ پہلے روز سے اس تحریک کا حصہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کی بھی کوئی ذمے داری ہے اور انھیں ملک اور معاشرے کے لیے یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، اس دیوار نے ہمیں ایک پلیٹ فارم دیا ہے، ان لوگوں کے لیے کچھ کرنے کے لیے جو ضرورت مند ہیں، ”تاہم ابھی بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ’دیوارِ مہربانی‘ سے کوئی بھی چیز بلامعاوضہ اٹھائی جا سکتی ہے، اور صرف لینے والوں کو ہی نہیں بلکہ مدد کرنے والوں کی اکثریت بھی فی الحال یہ نہیں جانتی کہ شہر میں ’دیوارِ مہربانی‘ موجود ہے۔”
جواد اقبال نے بتایا کہ اب میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں حصہ لیں اور اپنے علاقوں میں ان دیواروں کی ملکیت لے سکیں۔
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے نوجوان ضیاء الدین خان ماموند نے دیوار مہربانی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سماجی اور فلاحی کاموں میں نوجوانوں کی دلچسپی اور ضرورت مندوں کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی مدد کا تصور ایک مثبت پیش رفت ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
عطیہ کرنے والوں میں حمزہ خان ( فرضی نام ) بھی شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ براہ راست کسی کو کچھ دے دینا بھی اچھا ہے لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سب مشترکہ طور پر یہ کام کر سکیں تو اور بھی بہتر ہے، ایک دوسرے کو دیکھ کر اچھا کام کرنے کے لیے اور بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
انجنیئر جواد اقبال کے مطابق انہیں قطعی طور پر اتنی زیادہ پذیرائی کی توقع نہ تھی، ”اب جبکہ اس کام کو اتنی زیادہ پذیرائی ملی تو ہم نے موجودہ ڈونیشن اور مزید ملنے والی ڈونیشن کو اپنے پاس جمع کرنا شروع کیا ہے، رمضان سے کچھ دن قبل دیوار مہربانی لگا کر اس میں نہایت مستحق افراد کو رمضان کا راشن دیں گے، ہماری کوشش اب زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک ضروریات زندگی پہنچانا ہے۔”