چارسدہ: سیلاب بی ایچ یوز ہی نہیں ادویات بھی بہا کر لے گیا
انیس ٹکر
گزشتہ سال چارسدہ کی سات یونین کونسلوں میں سیلاب کی وجہ سے چار مراکز صحت؛ بی ایچ یو کتوزئی، بی ایچ یو کوٹ، بی ایچ یو گل آباد اور سول ڈسپنسری آگرہ کی عمارتوں کو نقصان پہنچا جبکہ سیلاب کا پانی ادویات بھی ساتھ بہا لے گیا۔
بی ایچ یو کتوزئی میں کام کرنے والے رازی خان نے بتایا کہ سیلاب کے بعد مذکورہ علاقوں میں جِلدی امراض، ملیریا، ڈینگی، امراض سینہ اور سکیبیز جیسی بیماریاں پھیل گئی ہیں، ”یہاں تو ہر قسم کے مریض آتے ہیں لیکن خاص طور پر یہ جو سیلاب آیا تھا اس کے بعد سکن بیماری اور گیسٹروانٹرائٹس، یعنی قے اور دست، اور سینے کی بیماریاں بہت زیادہ ہو گئیں، سیلاب کے دوران تو ہمیں بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہمیں ادویات بھی بھجوائی گئیں، یہاں کیمپس بھی لگوا کر دیئے، اور ہم نے خود بھی ان کیمپوں میں حصہ لیا۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں چارسدہ کے فلڈ فوکل پرسن ڈاکٹر ذیشان حیات نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے مراکز صحت متاثر ہونے کی وجہ سے ہر یونین کونسل میں تقریباً دس سے 15 ہزار لوگ علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہو گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ متاثرہ مراکز صحت میں صفائیاں ہو چکیں اور فوری طور پر، سیلاب کے دوسرے دن سے ہی وہاں چمن میں طبی سرگرمیاں جاری ہوئیں جو تاحال جاری ہیں، جبکہ عمارات ابھی تک بحال نہیں کی جا سکی ہیں، ”ہمارے جو چار پانچ سنٹر متاثر ہوئے تھے، ان کی دیواریں گر گئیں تھیں، وہاں جو آلات تھے وہ بھی سیلاب کی وجہ سے خراب ہو گئے تھے، ہم نے ان (سنٹرز کی) کی صفائی وغیرہ کروائی، وہاں میدان میں ہمارے ڈاکٹر حضرات بیٹھے ہوئے ہیں اور فری میدیکل کیمپ ہم نے ہسپتال میں لگائے ہیں، اور وہاں علاج ابھی بھی جاری ہے، علاج رکا نہیں، سیلاب کے دوسرے تیسرے دن سے ہی ہم نے علاج کی فراہمی شروع کی تھی لیکن عمارت اور آلات تو سارے خراب ہو گئے تھے۔”
سیلاب سے قبل بی ایچ یو کتوزئی سے اپنا علاج معالجہ کروانے والی ثمینہ بی بی نے بتایا کہ وہ ان جیسے غریب لوگوں کے لئے ایک بہت اچھی جگہ تھی، کم پیسوں پے اچھا علاج ہوتا تھا لیکن اب انہیں مشکلات درپیش ہیں، ”ہماری تو غربت ہے اِدھر اُدھر نہیں جا سکتے تو ہمیں اس کا ہسپتال کا یہ فائدہ ہے کہ ایک تو یہ ہمیں قریب پڑتا ہے، ہمارے پاس اتنے پیسے اور اتنی سہولیات نہیں ہیں کہ ہم باہر جا سکیں۔”
ڈاکٹر ذیشان نے بتایا کہ تباہ شدہ عمارات کا محکمہ صحت نے سروے کرایا ہے اور ان کی بحالی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان سیلابی علاقوں میں عمارات کے سیلاب سے بچاؤ کا کوئی خیال، دھیان نہیں رکھا گیا ہے، ”پورا پروفارما، کتنی جگہ خراب ہوئی ہے، دیوار کتنی متاثر ہوئی ہے، اس پے خرچ کتنا آئے گا، یہ پوری فہرست ہم نے انہیں مہیا کی ہے اور وہ آگے بھی بھیجی گئی ہے تو امید ہے کہ اس پر کام کا جلد آغاز کر دیا جائے گا۔”
مقامی لوگوں نے حکومت اور محکمہ صحت سے مطالبہ کیا کہ ان متاثرہ بی ایچ یوز کو جلد از جلد فعال کیا جائے تاکہ وہ اپنے علاقے میں ہی اپنا علاج معالجہ کرانے کے قابل ہو سکیں۔