لائف سٹائل

شجر دوست: ایک لاکھ 13 ہزار سے زائد پودے لگانے والے خضر چشتی کا دوسرا نام

ماریہ سلیم

درخت ہماری زمین کے پھیپھڑے ہیں، یہ ہماری فضا کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ کرہ ارض کا درجہ حرارت بھی برقرار رکھتے ہیں۔ آج کل جو عالمی مسئلہ چل رہا ہے وہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے؛ انسان نے اس سیارے کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مسلسل بڑھتی ہوئی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی بڑی وجہ فضائی آلودگی بھی ہے۔

گاڑیوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے دھویں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار کی وجہ سے درختوں کی بے ساختہ کٹائی ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب خطرناک حد تک بڑھا رہی ہے جس سے گلوبل وارمنگ اور اربن فلڈنگ بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ اموات فضائی آلودگی سے متاثر ہو کر ہو رہی ہیں۔

درخت لگانا موجودہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ٹی وی اور سوشل میڈیا پر سال میں ایک بار پلانٹیشن ڈے (یوم شجرکاری) منا کر اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں لیکن پودے لگانے کے بعد ان کا خیال رکھنا بھول جاتے ہیں۔

لیکن کچھ لوگ ایسی اللہ والی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں جو بغیر کسی صلے یا معاوضے کے رضائے الہی کی خاطر مخلوق خدا کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام خضر ولی چشتی ہے جو کہ "شجر دوست” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

پاکپتن کے ایک چھوٹے سے قصبے فیروز پور چشتیاں سے تعلق رکھنے والے خضر بچپن میں ہی پولیو کا شکار ہو گئے تھے جس کی وجہ سے دس سال کی عمر تک وہ گھر میں ہی محدود رہے۔ اس دوران ان کی دوستی اپنے گھر میں لگے نیم کے پیڑ کے ساتھ ہو گئی۔ اور یہاں سے پیڑوں کے ساتھ محبت کا ایک خوبصورت سلسلہ شروع ہوا۔

دس برس کی عمر میں خضر چشتی نے اپنی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ پیڑوں کے ساتھ محبت کی لگن اتنی تھی کہ ماسٹرز بھی جیوگرافی میں کیا۔

آپ نے شجرکاری کا باقاعدہ آغاز 2015 سے کیا اور 2017 میں اپنی ذاتی نرسری قائم کی جو کہ پاکستان کی مفت پودے تقسیم کرنے والی پہلی فری نرسری تھی، ابتدائی پیداوار دو سو پودوں کی تھی اور اب یہ نرسری سالانہ پچاس ہزار پودے تیار کر کے مفت تقسیم کر رہی ہے۔

ایک دو پیڑ سہی، کوئی خیابان نہ سہی
اپنی نسلوں کے لیے کچھ تو بچایا’

یہ پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے آسٹریلیا میں مقیم ان کے دوستوں نے 2021 میں ان کے نام کا جنگل لگایا ہے۔

یہ خضر چشتی ہی ہیں جنھوں نے تین سال پہلے میلہ اشجار یعنی ٹری فیسٹیول کو سالانہ طور پر منعقد کرنا شروع کیا جس میں یہ درخت لگانے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں، لوگوں کو شجرکاری کی ترغیب دیتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی اور ان کے کام سے متاثر ہو کر شجرکاری کرنے والوں کو ایوارڈز سے نواز کر حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

خضر ابھی تک ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زائد پودے لگا چکے ہیں؛ ان کو دیکھ کر لوگوں میں بھی درخت لگانے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے، ان کے کام سے متاثر ہو کر ایک فالور نے اپنی تیس ایکڑ زمین پر پچاس ہزار سے زائد پودے لگا لئے ہیں۔

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ انہوں نے شجرکاری کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک ایک کروڑ درخت لگانے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔

خضر چشتی جیسے لوگ ہمارا فخر ہیں؛ ھمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور ہمارے محسن ہیں۔ ہم جو پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں وہیں آپ جیسے لوگ ہماری زمین کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

درخت لگانا اور اپنے ماحول کو بچانا ایک اکیلے شخص کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے جو کہ ہم سب کو مل کر ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے بچ سکیں اور جو نقصان ہم اب تک کرہ ارض کو پہنچا چکے ہیں اس کا ازالہ کر سکیں۔

خضر چشتی کا ہم سب کیلئے یہ پیغام ہے کہ درخت لگائیے اور ان کی مناسب نگہداشت بھی کیجئے کیونکہ یہ ہماری دھرتی کا زیور ہیں اور درخت لگانا ہمارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔

تم لگاتے چلو اشجار جدھر سے گزرو
اس کے سائے میں جو بیٹھے گا دعا ہی دے گا

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button