سیلاب کے بعد چارسدہ کے بچوں میں نمونیا کی شکایت عام ہو گئی
انیس ٹکر
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں گزشتہ برس سیلاب آنے کے بعد موسم سرما کے دوران بچے دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ نمونیا میں بھی مبتلا ہوئے جو ضلع کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔
چارسدہ کے علاقہ دوآبہ سے تعلق رکھنے والے حسبنااللہ کے چار سالہ بیٹے کو بھی گزشتہ چند روز سے بخار اور کھانسی کی شکایت ہے، ساتھ سینہ بھی خراب ہے اور جھٹکے کی بیماری کا بھی شکار ہوا ہے جسے وہ چلڈرن ہسپتال رجڑ علاج کیلئے لے کر آئے ہیں، ”ہمارے ایک بچے کا سینہ خراب تھا جسے ہم یہاں لے کر آئے ہیں اور یہاں آئے ہوئے آج ہمارا تقریباً چوتھا دن ہے، سینہ خراب تھا، کھانستا رہتا تھا، پھر اسے جھٹکے آںے لگے، وہاں جو علاقائی ڈاکٹر تھے ان کے پاس لے کر گئے لیکن شکایت زیادہ تھی تو انہوں نے کہا کہ ہسپتال لے کر جائیں، یہ چونکہ پشاور کی نسبت قریب پڑتا ہے تو ہم اسے یہاں لے کر آئے، تو بس علاج اچھا ہے، تھوڑا سست روی کا شکار ہے لیکن دیگر ہسپتالوں کی نسبت اچھا ہے، بس یہ ہے کہ بعض ادویات ہم باہر سے خود لیتے ہیں جبکہ انجکشن وغیرہ یہ لوگ خود لگواتے ہیں۔”
ہسپتال میں احمد علی نام کا ایک اور بچہ بھی داخل ہے جسے نمونیا کی شکایت ہے اور ہسپتال میں زیرعلاج ہے، اہلخانہ کے مطابق سرکاری خرچ پر اس کا علاج جاری ہے، ”یہ ہمارا ایک بچہ بیمار ہے، نمونیا کا مسئلہ ہے اسے، سیلاب کے بعد ہم ادھر آئے ہیں تو مسئلہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے، اب ہمارا بچہ ایڈمٹ ہے یہاں لے کر آئے ہیں، اب دیکھیں گے بچے کی حالت کو، ڈاکٹر کے ساتھ بھی مشورہ کریں گے تو جیسا وہ کہیں گے پھر اسی طرح کریں گے، علاج تو ٹھیک ٹھاک جاری ہے، سرکاری ہسپتال ہے اپنا تو دوائی کے پیسے ہی لگتے ہیں، یہ جو لکھ کر دے دیتے ہیں وہ ہم باہر سے خرید کر لاتے ہیں، باقی اندر ہسپتال کے ہمارا کوئی خرچہ نہیں ہوا ہے۔”
چلڈرن ہسپتال رجڑ میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر حمید گل نے نمونیا کی علامات بارے بتایا کہ جب بچوں کا سینہ زخمی ہو جاتا ہے تو ان میں سے بیشتر نمونیا کا شکار ہوتے ہیں، بقول ان کے یہ مرض کسی بھی عمر کے فرد کو لاحق ہو سکتا ہے تاہم بسااوقات پانچ سال تک کی عمر کے بچے اس میں مبتلا ہوتے ہیں، ”نمونیا سینے کے زخم کو کہتے ہیں، سینے کا زخم ایسا ہوتا ہے جس میں آپ اینٹی بائیوٹک دیتے ہیں مطلب جراثیم کیلئے اینٹی بائیوٹک دیتے ہیں، (حالانکہ) اینٹی بائیوٹک نمونیا کی ایسی حالت میں دیتے ہیں جب بچے کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، اس کی حالت خراب ہوتی ہے تو جو دوائی اسے دی جاتی ہے، اینٹی بائیوٹک، ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ ٹھیک ہو جائے، ہسپتال میں ایسے بچوں کو لایا جاتا ہے جو سیریس ہوتے ہیں، انہیں کینولہ میں اینٹی بائیوٹک انجکشن لگائے جاتے ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ بعض بچوں کو آکسیجن بھی درکار ہوتی ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ چارسدہ میں نمونیا کے کیسز میں اضافے کی بڑی وجہ سیلاب کے بعد ہوا میں جراثیم کا پھیلاؤ، جا بجا گندگی اور سردی میں اضافہ ہے، ”گزشتہ سال سیلاب کے بعد نمونیا کی بیماری بہت پھیل گئی ہے، اب بھی اگر آپ جائیں تو ہمارے پاس نمونیا کے 20، 25 مریض پڑے ہیں، جب کبھی سیلاب آتا ہے تو ہوا میں جراثیم زیادہ ہو جاتے ہیں تو اس کے ساتھ نمونیا کا مرض بہت پھیلتا ہے، بچے کو بہت زیادہ سرد ہوا میں باہر نہیں لے کر جاتے، گھر پے نارمل ٹمپریچر میں اسے رکھا جاتا ہے، بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، ماں اسے نہلاتی ہے، بعض لوگ حفاظتی ٹیکے نہیں لگواتے بچوں کو، جس بچے کو نمونیا کا دس فیصد خطرہ ہوتا ہے، اگر اسے حفاظتی ٹیکے نہ لگائے جائیں تو یہ خطرہ 70، 80 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔”
دوسری جانب ڈی ایچ او چارسدہ کے ترجمان ڈاکٹر حیات کہتے ہیں کہ گزشتہ برس سیلاب کے وقت سے لے کر اب تک مجموعی طور پر 15 سو کے قریب بچے نمونیا کا شکار ہوئے ہیں، ”28 اگست کے بعد جب سے سیلاب آیا ہے تو میں آپ کو صرف سینے کے امراض کا بتاؤں گا جو ہمارے پاس رپورٹ ہوئے ہیں اب تک، اکتوبر میں ہمارے پاس دو ہزار 660 کیسز رپورٹ ہوئے، نومبر میں دو ہزار 420 تھے، دسمبر میں 1046 تھے، یہ صرف کی سینے کی بیماری والے تھے، جنوری 2023 میں یہ ہمارے پاس 236 ہو گئے ہیں، پھر اس میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے 99 تھے، اور اب جنوری میں 246 ہیں۔
ان کے مطابق اگر سیلاب زدہ علاقوں میں صاف پانی کے پلانٹ نصب کئے جائیں تو امید ہے کہ ان علاقوں میں پھیلی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے۔