بلوچستان: متاثرینِ سیلاب ہیضہ، ڈینگی اور ملیریا کے نرغے میں
عزیز سباؤن
جون 2022 کے وسط اور پھر اگست کے اختتام تک ہونے والی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بلوچستان کے 34 میں سے 28 اضلاع متاثر ہوئے، اگرچہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں بحالی کے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے تاہم سبی، تربت، نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور، اوستہ محمد جیسے گرم اضلاع اور آس پاس کے علاقوں میں پانی کی زیادتی اور جگہ جگہ کھڑا رہنے کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔
مذکورہ بالا بیماریوں میں جلدی امراض کے ساتھ ساتھ ہیضہ، ڈینگی اور خاص طور پر ملیریا کی بیماری بہت زیادہ پھیل گئی ہے، ان امراض کی وجہ سے متاثرین سیلاب کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ملیریا سے حال ہی میں صحتیاب ہونے والے فضل الرحمٰن کہتے ہی کہ کوئٹہ سے وہ ایک رات تربت گئے لیکن وہاں ملیریا کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ مزید تکلیف کا شکار ہوئے، ”موسم گرم تھا، وہاں پے مچھر بہت زیادہ تھا، دوسرے وہاں خوراک کا بھی کوئی ایسا زریعہ نہیں تھا، تو میں نے اپنا کام کیا اور تقریباً ایک ہفتے بعد بخار کی شکایت ہوئی، ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے دوائیاں دیں لیکن ان ادویات کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوئی، پہلی مرتبہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ مجھے کیا مرض لاحق ہے، میری حالت اتنی خراب ہوئی کے بے ہوشی طاری ہونے لگی پھر تین دن میں ہسپتال میں داخل رہا۔”
بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال، سول ہسپتال کوئٹہ میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر عبدالکریم نے ٹی این این کو بتایا کہ ملیریا کی بیماری ان علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے جہاں صفائی کا خاص انتظام نہیں ہوتا، ”سیلاب کے بعد ان علاقوں میں ملیریا، پیٹ کی بیماریاں اور ٹائیفائڈ کا مرض عام ہوا جہاں پانی کھڑا تھا، مادہ مچھر جسے ہم این اے فلز کہتے ہیں اس کے کاٹنے سے ملیریا ہو جاتا ہے، اس کی چار اقسام ہیں، اس مچھر کے کاٹنے سے سخت بخار ہوتا ہے (سردی لگتی ہے) اس کے بعد گرم بخار ہوتا ہے اور ہڈیوں میں یعنی کمر اور ٹانگوں میں بہت سخت درد ہوتا ہے، سر درد بہت ہوتا ہے اور قے کی شکایت ہوتی ہے، سیلاب آںے کے بعد جہاں پانی بہت زیادہ کھڑا ہوتا ہے تو وہاں مچھر کے کاٹنے سے جسے ہم پلازموڈیم کہتے ہیں وہ انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے جس سے اسے ملیریا لاحق ہو جاتا ہے۔”
گزشتہ ہفتے ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ”میڈیسن سانس فرنٹیئرز” (ایم ایس ایف) نے، جو ڈاکٹر وِد آؤٹ بارڈرز کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، اپنی رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ متاثرہ اضلاع میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران پچاس فیصد مریضوں میں ملیریا کی تشخیص ہوئی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر تا 10 جنوری لگ بھگ 42 ہزار مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئیں۔
محکمہ صحت بلوچستان کے اہلکار جمال شاہ کا کہنا ہے کہ این جی اوز کے ساتھ ساتھ حکومت بلوچستان کی بھی پوری کوشش ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا کے مریضوں کو سہولیات دی جا سکیں۔
لیکن جمال شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملیریا کے مریضوں کے لئے اس طرح کے اقدامات نہیں کئے جا رہے جن کی ضرورت ہے، ”اس مرض میں مبتلا لوگوں کے لئے علاج کی بڑی اشد ضرورت ہے، پھر کٹس کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، مچھر دانیوں کی بڑی سخت ضرورت ہوتی ہے، ملیریا اور اس کے لئے جو مخصوص ٹیبلٹس آتے ہیں ان کی بڑی سخت ضرورت ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، وہ معیار نہیں ہے ان کا کیونکہ جب سیلاب آیا تو سب سے بڑی مشکل جو ہمیں درپیش تھی وہ یہی تھی کہ ملیریا کے لئے درکار گولیاں ہم ان لوگوں تک کیسے پہنچائیں، وہ اس صوبے نہیں بلکہ پورے ملک کا المیہ تھا اور ہم پوری دنیا سے اپیل کر رہے تھے کہ ہمیں گولیاں اور کٹس اور مچھر دانیاں فراہم کریں لیکن وہ بھی بہت کم مقدار میں (دی گئیں)۔”
ڈاکٹروں کے مطابق علاج معالجے کی سہولیات کی عدم فراہمی اور غذائی قلت کے باعث ملیریا کا مرض بڑوں کی نسبت بچوں کو آسانی کے ساتھ لاحق ہوتا ہے۔
ایم ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سندھ اور بلوچستان کے درمیان واقع اضلاع میں 28 ہزار 313 بچوں کا معائنہ کیا گیا جن میں 8 ہزار 738 بچے درمیانہ جبکہ 6 ہزار 489 بچے زیادہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔