پابندی کے باوجود پاکستان روس سے رعایتی نرخوں پر پٹرول خرید سکتا ہے۔ امریکہ
امریکا نے واضح کیا ہے کہ پاکستان روس سے رعایتی نرخوں پر پٹرول خرید سکتا ہے اس کے باوجود کہ اس نے پٹرولیم مصنوعات پر پرائس کیپ (قیمتوں کی حد) پر دستخط نہیں کئے ہیں۔
منگل کے روز ایک نیوز بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان بھی اس رعایت سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو امریکا نے دیگر ممالک کو روس سے تیل خریدنے کے لیے دی ہے۔
نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ ہم نے مختلف ممالک کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے حتیٰ کہ ان ممالک کو بھی جنہوں نے پرائس کیپ پر باضابطہ طور پر دستخط نہیں کیے تاکہ وہ بعض صورتوں میں دوسرے ممالک سے خلاف معمول بڑی رعایت پر تیل خرید سکیں، اس صورت میں روس سے۔
یاد رہے کہ 3 دسمبر 2022 کو جی 7 اور یوپی یونین کے ممالک نے روسی تیل کی فی بیرل کیپ 60 ڈالر مقرر کی تھی تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال کو روکا جا سکے۔
چونکہ یورپ اور امریکا اب خام تیل روس سے درآمد نہیں کر رہے اس لئے تیل کی محدود فروخت صرف پاکستان جیسے ممالک پر ہی اثرانداز ہو گی تاہم پاکستان نے ابھی تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، بنیادی طور پر اس وجہ سے بھی کہ پاکستان روس سے تیل درآمد نہیں کرتا تھا۔
مسٹر پرائس نے کہا کہ روس سے تیل کی خریداری کے بارے میں امریکی نقطہ نظر کو قیمتوں کی حد کے طریقہ کار میں بیان کیا گیا ہے جس پر اس نے G7 سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ کام کیا ہے۔
"اور قیمت کی حد کی خوبی یہ ہے کہ یہ توانائی کی منڈیوں کو وسائل حاصل کرنے کی اجازت جبکہ ماسکو کو اس آمدنی سے محروم کرتی ہے جو اسے یوکرین کے خلاف اپنی وحشیانہ جنگ اور پروپیگنڈہ جاری رکھنے کے لیے درکار ہو گا، ہم نے جان بوجھ کر روسی تیل کی منظوری نہیں دی، اس کے بجائے یہ اب قیمت کی حد سے مشروط ہے۔” ” امریکی اہلکار نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بہت واضح ہے کہ اب روس کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں بڑھانے کا وقت نہیں ہے، "لیکن ہم توانائی کی عالمی منڈیوں کو اچھی طرح سے وسائل رکھنے، بہتر سپلائی کی ضرورت کو سمجھتے ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ قیمت کی حد ایسا کرنے کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔”
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے وزیر اقتصادی امور ایاز صادق اور روس کے وزیر توانائی نکولے شولگینوف نے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مارچ کے آخر تک تیل کے معاہدہ پر دستخط ہو جائیں گے جس سے پاکستان کو رعایتی نرخوں پر روس سے تیل درآمد کرنے کی اجازت ہو گی، دونوں فریقین نے پاکستان کو روسی خام تیل اور تیل کی مصنوعات کی فراہمی کے حوالے سے ایک اصولی معاہدہ کیا ہے جس کی تکنیکی تفصیلات کو مارچ تک حتمی شکل اختیار دی جائے گی۔
روسی وزیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اچھا ہو گا کہ شرائط پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے پاکستان 2 بڑی ایل این جی پیداواری کمپنیاں گیزپروم اور نوواٹیک سے 2023 کے آخر تک رجوع کرے۔
پاکستان اس وقت توانائی کی کمی کا شکار ہے جو ماہانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تقریباً 4 لاکھ 30 ہزار ایم ٹی موٹر پٹرول، 2 لاکھ ایم ٹی ڈیزل اور 6 لاکھ 50 ہزار ایم ٹی خام تیل درآمد کرتا ہے۔
دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں تیل کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ درآمد کنندگان ڈالر کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہیں، جبکہ ملک کے غیرملکی زرمبادلے کے ذخائر 9 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں لہٰذا ان حالات میں روس سے رعایتی نرخوں پر تیل کی خریداری اس دباؤ میں کمی لا سکتی ہے۔