جنیوا کانفرنس: امداد یا قرضہ، حقیقت کیا ہے؟
نبی جان اورکزئی
حال ہی میں منعقدہ جنیوا کانفرنس میں حکومت پاکستان کے ساتھ سیلاب کے بعد دوبارہ بحالی کیلئے مختلف ممالک اور امدادی اداروں کی جانب سے لگ بھگ دس ارب ڈالر کے وعدے کئے گئے جسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے یہ کانفرنس خصوصی طور پر پاکستان کے سیلاب متاثرین کی دوبارہ بحالی کیلئے منعقد کی گئی تھی جس میں 40 سے زائد ممالک اور امدادی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کانفرنس میں کئے گئے وعدوں میں ایک یا ڈیڑھ ارب ڈالر تک امداد ہے جبکہ باقی کی رقم قرضے کی شکل میں دی جائے گی، ”یو این کے سیکرٹری جنرل جب یہاں آئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کا تو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، اس کے بعد انہی کی کوششوں سے جنیوا میں جو اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹر ہے، وہاں یہ پروگرام کیا گیا دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ، کیونکہ یو این کے زریعے ان کا اعتماد ہے، یہ کانفرنس ہوئی، محکمہ خزانہ کے مطابق یہ امداد اگلے تین سالوں میں پاکستان پہنچے گی، اور یہ مختلف مدات میں آئے گی، جیسے سڑکوں کی مد میں آئے گی، لوکل سپورٹ کی مد میں آئے گی، یہ اس آرگنائزیشن کی مدد سے آئے گی جیسے جی آئی زی یہاں پراجیکٹ لائے گی اور وہ خود ہی اسے ایمپلیمنٹ کرے گی، دوسرے آٹھ اعشاریہ سات میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر امداد ہے باقی قرضہ ہے، تو ظاہر ہے قرضہ تو وفاقی حکومت نے لیا ہے اور وہ اسے خرچ کرے گی۔”
لحاظ علی کے مطابق اس امداد اور قرضوں میں سے خیبر پختونخوا کو ہوئے نقصان کے مطابق حصہ ملے گا جبکہ یہ رقوم آئندہ دو سے تین سالوں میں ملیں گی، ”پاکستان کو اگست کے آخر اور ستمبر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، خیبر پختونخوا کے جو اعدادوشمار ہیں تو خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق ہمارا 125 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، جو سرکاری ڈھانچہ ہے اس کو یہ نقصان پہنچا ہے یعنی اس میں خیبر پختونخوا کا پورشن بہت کم ہے، اس سے تو ایک یہ ظاہر ہوا لیکن خیبر پختونخوا کا اس میں حصہ ہے، خیبر پختونخوا نے لازم اپنی پروپوزل وغیرہ پیش کی ہو گی۔”
جنیوا کانفرنس میں شریک بیشتر ممالک نے براہ راست حکومت پاکستان کو امداد دینے کی بجائے اپنے ریاستی فلاحی اداروں کے زریعے تعاون یا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
محکمہ موسمیاتی تبدیلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر افسر خان کے مطابق کہ اس قسم کی امداد کا حصول بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ فلاحی اداروں کی جانب سے بہت زیادہ شرائط رکھی جاتی ہیں، ”جنیوا میں 9 جنوری کو جو کانفرنس تھی اس کا ٹائٹل تھا کلائمیٹ ریزیلئنٹ پاکستان، تقریباً دنیا کے بیشتر ممالک نے اس میں شرکت کی ہے اور ضروری ہے کہ وہ اس میں شرکت کریں، یہ جو ممبر ممالک ہیں وہ اس جنیوا کانفرنس میں آئے تھے اور درخواست دراصل پاکستان نے خود کی تھی کہ سیلاب نے مجھے متاثر کیا ہے اور میرا اتنا نقصان ہوا، تو اب یہ جو کانفرنس ہوئی اور اس میں ڈونرز نے جو اعلانات کئے ہیں وہ ایسے نہیں کہ جیسے ہم نے مسجد میں چادر پھیلا لی ور لوگوں نے ہمیں پیسے دیئے اور اب یہ وہاں پڑے ہیں، یہ گرانٹس ہیں، اور بعض اس میں قرضے ہیں، اور پھر یہ اس طرح مشروط ہوتی ہے کہ بھئی آپ مجھے وہ کام دکھائیں گے، کہ آپ نے جو سیلاب متاثرین ہیں ان کو اس میں سے کیا دیا، آپ نے کون سا سٹرکچر بنایا ہے، کون سی امبیکمنٹ کی ہے، کون سا ڈائک بنایا، یا کوئی ارلی وارننگ سسٹم آپ نے بنایا کہ مستقبل میں اس طرح کے سیلاب نہیں آئیں گے تو یہ ایک اچھا قدم ہے، یہ فنڈز جتنی جلدی ریلیز ہو جائیں اور اگر ان کی شرائط کم ہو جائیں تو اس کا پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔”
گزشتہ سال اگست میں آںے والے سیلاب کی وجہ سے ملک کے چاروں صوبے متاثر ہوئے تھے اور مختلف اندازوں کے مطابق 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کے امور کے ماہر صحافی محمد داؤد خان کے مطابق سیلاب اور اس قسم کی دیگر آفات موسمیاتی تبدیلی کے باعث آتی ہیں جس کے ذمہ دار ترقی یافتہ اور زیادہ صنعتیں رکھنے والے ممالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک پھر متاثرہ ممالک کے ساتھ امداد کرتے ہیں، ”دنیا میں اس وقت جو وارمنگ/درجہ حرارت ہے، اس میں جو اضافہ ہوا ہے ظاہر ہی سی بات ہے کہ یہ صنعتی انقلاب سے آیا ہے یہ جو مغرب میں کارخانے ہیں تو درجہ حرارت یا اس میں اضافے کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں، گیسوں کا اخراج ان لوگوں نے کیا ہے، یہ پلینٹ ارتھ، اس دنیا کو ان امیر ممالک نے گندا کیا ہے اور اب یہ جو غریب ممالک ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، یہ اس درجہ حرارت میں اضافے یا گلوبل وارمنگ کے متاثرین ہیں، اور پاکستان تو بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، اور جیسے آپ نے ذکر کیا کہ پاکستان کی اپنی آب و ہوا کتنی حد تک خطرناک ہے تو دیکھیں جی یہ جو ہندوکش کے پہاڑ ہیں یہ جو پاکستان اور افغانستان سے متصل جو سلسلہ ہے تو ان پہاڑوں کے لوگوں اور پھر جو لوگ ان پہاڑوں کے میدانوں میں آباد ہیں تو درجہ حرارت میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے بعض علاقوں میں خشک سالی آئی ہے اور بعض علاقوں میں سیلاب بہت آتے ہیں، برفباری زیادہ ہوتی ہے، تو پاکستان کی اپنی آب و ہوا وارمنگ کے حوالے سے خود بھی بہت زیادہ خطرناک ہے اور موجودہ وقت میں بھی اور آںے والے وقت میں بھی اس کے اثرات انسانوں پر مرتب ہوں گے۔”
جنیوا کانفرنس کو کلائمیٹ ریزیلئنٹ پاکستان کا نام دیا گیا تھا جس کا مطلب اس طرح کی آفات کے آگے ملک کے انفراسٹرکچر کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کانفرنس سے ملنے والی امداد کو مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے خرچ کیا جائے گا۔