لائف سٹائل

سیلاب سے متاثرہ مگس بان حکومتی امداد کے منتظر

 

انور زیب 

” گزشتہ سال اگست کے مہینے میں پشاور سے مکھیوں سے بھرے 100 بکس صوابی منتقل کئے،  رات کو بارش ہوئی  سیلاب آیا اور سارے بکس پانی میں بہہ گئے” یہ کہنا ہے شہد کے کاروبار سے وابستہ عبید اللہ کا جو گزشتہ دو دہائیوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہے۔ عبید اللہ کے مطابق ایک بکس کی قیمت 9 ہزار روپے تھی اور یوں ایک رات میں لاکھوں کا نقصان ہوگیا۔

خیبر پختونخوا میں ہزاروں لوگ شہد کے کاروبار سے وابستہ ہے، جی ٹی روڈ پشاور پر قائم انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ ایشیا میں شہد کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہاں سے پاکستان سمیت مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک کو شہد سپلائی کی جاتی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عبیداللہ اور سینکڑوں دیگر مگس بان شہد اس مارکیٹ میں بیچتے ہیں جہاں آجکل مندی ہے۔

ہنی بی کیپر ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ سال سیلاب کے باعث جنوبی وزیرستان سے لے کر اپر دیر تک 16 اضلاع میں شہد کی مکھیوں کو نقصان پہنچا۔ سیلاب اور بارشوں کے باعث مکھیوں سے بھرے 22 ہزار 936 بکس مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں سینکڑوں کو نقصان پہنچا جس سے شہد کی پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ دستیاب دستاویز کے مطابق مگس بانوں کا سب سے زیادہ نقصان نوشہرہ میں ہوا۔ جہاں 70 ہنی بی فارم سیلاب سے متاثر ہوئے۔ پشاور میں 25، مردان میں 6، چارسدہ اور سوات میں چار چار ، بونیر میں 2، وزیر ستان، مہمند ، مانسہرہ اور ہری پور میں شہد کی ایک ایک فارم میں پانی داخل ہوا۔ سوات سے تعلق رکھنے والی خاتون مگس بان افسانہ بیگم کی 200 بکس سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔

فارم مالکان کہتے ہیں شہد کی مکھیوں کو پہاڑوں اور ویرانو ں میں شہد پیدا کرنے کیلئے لے کر جاتے ہیں۔ تاہم گزشتہ کئی سال سے موسم میں اچانک تبدیلی، بے وقت بارشوں اور سیلابوں کے باعث فارمز کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ مدد کرنے نہیں آتے اور نہ ہی مگس بانوں کو معاوضہ ملتا ہے۔

ہنی بی کیپر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان خان نے ٹی این این کو بتایا کہ حالیہ سیلاب میں 124 ہنی فارمز سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ مجموعی طور 15 کروڑ سے زائد نقصان ہوا ہے۔ ابھی تک کسی مگس بان کو معاوضہ نہیں ملا کسی کا دس لاکھ نقصان ہوا ہے کسی کا بیس لاکھ ۔ شیر زمان کہتے ہیں سیلاب کے بعد حکومت نے املاک کے نقصان کیلئے معاوضہ مختص کیا ہے تاہم اس پورے لسٹ میں شہد کے مکھیوں کے فارمز شامل نہیں۔ وزیر اعلی کے آبائی گاوں میں فارمز سیلاب میں بہہ گئے ہیں انہیں بھی ابھی تک کچھ نہیں ملا۔

شیر زمان کہتے ہیں جن لوگوں کا نقصان ہوا انکی لسٹ تیار کرلی گئی ہے تاہم ضلعی انتظامیہ کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے پاس چلے جائے ادھر جاتے ہیں تو وہ انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ حکومت نے شہد کی انڈسٹری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال کبھی فارم جل جاتے ہیں کبھی کوئی اور واقعہ پیش اتا ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک سنئیر اہلکار نے ٹی این این کو بتایا کہ جب سیلاب سے متاثرہ نقصانات کے ازالہ کیلئے میٹنگ ہورہی تھی تب ان فارمز کے حوالے سے کسی نے بات نہیں کی تاہم اسکے علاوہ بھی ضلعی انتظامیہ کے پاس فنڈ ہوتے ہیں جو کسی بھی ڈیزاسٹر کی صورت میں لوگوں کی مدد کیلئے فراہم کی جاتی ہے۔ انکے مطابق متاثرہ مگس بانوں کا نقصان اگر بہت زیادہ ہے تو متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے پاس درخواست جمع کرسکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button