لائف سٹائل

ہرنائی تا کوئٹہ سڑک تباہ، حکومت امداد کی منتظر ہے!

اقبال کاکڑ

بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے رہائشی 40 سالہ سید نور شاہ نے اپنی مدد آپ کے تحت گزشتہ سال مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے باعث خراب ہونے والی سڑکوں کی بحالی یا تعمیر نو کا کام شروع کر رکھا ہے۔

سید نور شاہ کہتے ہیں کہ ہم ان رکشوں میں لگے ہوئے ہیں، کہیں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہوتی ہیں تو ان کیلئے راستہ کھولتے ہیں اور اگر کہیں سیلاب آیا ہے تو خود وہاں جا کر ریسکیو کا کام کرتے ہیں۔

بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع ہرنائی بھی گزشتہ سال جون تا اگست ہونے والی بارشوں سے بہت متاثر ہوا ہے۔

سید نور شاہ کے مطابق ہرنائی کی 80 فیصد سڑکیں اور آدھے پُل سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ بقول ان کے ضلع ہرنائی بلوچستان میں سب سے زیادہ معدنیات اور سبزیاں پیدا کرنے والا ضلع ہے تاہم سڑکوں کی بحالی پر کام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے، ”اس میں ہرنائی تا کوئٹہ 180 کلومیٹر سڑک خراب ہے، سیلاب مکمل طور پر بہا لے گیا ہے، اگر میں کہوں تو تین تین، چار چار فٹ گاڑی پانی میں جائے گی اور پھر گھاٹیوں اور پہاڑوں میں جائے گی، یہ سیوئی تک کا راستہ ہے جو خراب ہے، حکومت پاکستان، حکومت بلوچستان کے ان محکموں نے جس طرح کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے میرا نہیں خیال کہ انہوں نے اس طرح کیا ہو گا، وقتی طور پر تھوڑا تھوڑا کر رکھا ہو گا۔”

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ترجمان مقبول جعفر نے بتایا کہ گزشتہ سال بارش اور سیلاب کی وجہ سے صوبہ بھر میں 22 سو کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 50 سے زائد پل تباہ ہوئے، ”روڈ کو دیکھا جائے تو تقریباً دو ہزار دو سو اکیس اعشاریہ نو آٹھ کلومیٹر سڑک تباہ ہوئی، اسی طرح برج کی بات کی جائے تو 58 برجز/پل، یہ جو ہے نا تباہی ہوئی ہے۔”

تحصیل شاہرگی کے رہائشی ڈاکٹر امنی کے مطابق اہل علاقہ ضلع میں اچھے ہسپتال کی عدم موجودگی کے باعث کان کنی کے دوران کان گرنے یا پھر خواتین کی بیماری کی صورت میں کوئٹہ یا لورلائی کی طرف جانے پر مجبور ہوتے ہیں تاہم سڑکوں کی خراب حالت کے باعث بروقت ہسپتال نہ پہنچننے پر مریض آدھے راستے میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں، ”ہماری اگر سبزی ہے، کوئلہ ہے یا مریض، ہم انہیں منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے، سبزیاں ہماری راستے میں ہی خراب ہو جاتی ہیں، اور بالخصوص یہاں ایکسیڈنٹ کے مریض بہت ہوتے ہیں کیونکہ کوئلے کی کانیں ہیں، روز یہاں ایکسیڈنٹس ہوتے ہیں، یہاں ڈیلیوری کی مریضائیں ہوتی ہیں، انہیں ہم کوئٹہ تک نہیں پہنچا سکتے، یا بوری تک نہیں پہنچا سکتے، وہ راستے میں ہی ایکسپائر ہو جاتی ہیں۔”

محکمہ بی اینڈ آر کے ایس ڈی او نجیب سیلاچی کے مطابق سیلاب کی وجہ سے متاثر ہونے والی سڑکوں کو اسسٹنٹ کمشنر کے تعاون سے عارضی طور پر تو بحال کیا گیا ہے جبکہ مستقل بحالی کیلئے وزیر اعلیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی کو رپورٹ ارسال کی گئی ہے، ”اس کے لئے لوگوں نے ڈیمانڈ مانگا تھا، فلڈ میں، گورنمنٹ آف بلوچستان نے، ہر ڈسٹرکٹ سے، وہ ہم لوگوں نے ڈیمانڈ بنا کے، کچھ روڈوں کا ان کو بھیج دیا ہے، تو پھر میرا خیال ہے فیڈرل گورنمنٹ کو فنڈ ملا ہے باہر سے، انہوں نے ابھی تک وہ صوٓبوں کو ڈیوائڈ نہیں کیا ہے۔”

دوسری جانب مقبول جعفر کے مطابق مرکزی حکومت ملک کے 30 اضلاع میں تعمیرنو کا کام شروع کر رہی ہے جن میں 11 اضلاع بلوچستان کے ہیں کیونکہ یہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button