آئیے شدت پسندی کو بھول کر وزیرستان کی سیر کریں!
حسام الدین
پاکستان کو قدرت نے بے تحاشہ خوبصورتی سے نوازا ہے؛ دلفریب پہاڑی علاقوں کے سلسلے نے پاکستان کے مختلف علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا کو اللہ تعالی نے نہایت قدرتی نظاروں سے نوازا ہے۔ عمومی طور پر ملک کے باقی صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی عوام سرد علاقوں میں سیر و تفریح کیلئے خیبر پختونخوا کی گلیات، کاغان اور ناران کا رخ کرتی ہے جہاں پر سیاحوں کی سہولیات کیلئے حکومت نے ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور ہٹس بنائے ہوئے ہیں۔
ملک میں شدت پسندی کی زد میں رہنے والے اضلاع شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کا نام سنتے ہی عوام کے اذہان میں شدت پسندی اور جنگ کا خوف ابھرنے لگتا ہے لیکن اب معاملات اس کے برعکس ہیں۔
وزیرستان کو قدرت نے نہایت خوبصورتی سے تراشا ہوا ہے جہاں پر شدت پسندوں کے خلاف متعدد آپریشنوں کے بعد امن کی فضا قائم ہو چکی ہے۔
جنوبی وزیرستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ لوئر وزیرستان اور اپر وزیرستان، لوئر وزیرستان میں وانا، شکئی، برمل، توئی خولہ جبکہ اپر میں لدھا، مکین، شوال، شکتوئی، سراروغہ اور سرویکی کی تحصیلیں شامل ہیں جبکہ جنوبی وزیرستان کے شمال میں شمالی وزیرستان، مغرب میں افغانستان، جنوب میں ژوب اور مشرق میں ٹانک اور ڈی آئی خان واقع ہے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کا کل رقبہ تقریباً 11 ہزار 326 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی وزیرستان کا رقبہ 4707 مربع کلومیٹر ہے۔
شمالی وزیرستان کا صدر مقام میرانشاہ ہے اور یہ ضلع تین سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے جن میں میر علی، میرانشاہ اور رزمک شامل ہیں۔ شمالی وزیرستان کے شمال میں ٹل اور افغانستان، مشرق میں بنوں، جنوب میں جنوبی وزیرستان جبکہ مغرب میں افغانستان کے صوبے گردیز اور غزنی واقع ہیں۔
صدر مقام میرانشاہ میں کینٹ ایریا ہونے کے ساتھ میرانشاہ پریس کلب بھی واقع ہے جہاں متاثرین آپریشن اپنے مطالبات کے حق میں اکثر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں شدت پسندوں کیخلاف آپریشن میں تجارتی مراکز تباہ ہو چکے تھے جس پر حکومت پاکستان نے جدید طرز کے تجارتی مراکز تعمیر کئے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہاں کبھی شدت پسندوں کیخلاف آپریشنز ہوئے ہوں گے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہیں ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے کسی مرکز میں آ چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں تین بڑے دریا بہتے ہیں؛ دریائے ٹوچی جو افغانستان سے شمالی وزیرستان میں داخل ہوتا ہے، اس دریا کی مناسبت سے شمالی وزیرستان کا پہلا نام بھی اس دریا کے نام سے منسوب تھا۔ آج بھی یہاں کے عمر رسیدہ افراد شمالی وزیرستان کو اپنی زبان میں (تیچی) یعنی ٹوچی اور میرانشاہ بازار کو (سرائے) کے نام سے پکارتے ہیں۔ دریائے کرم، دریائے کھیتو بہتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے بنوں دتہ خیل، میرانشاہ سے غلام خان، میر علی سے رزمک اور رزمک سے شوال تک کارپٹ سڑکیں بچھائی گئی ہیں۔
جنوبی وزیر ستان ایک خشک پہاڑی علاقہ ہے جسے انتظامی طور پر دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان کا کل رقبہ 6620 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ دشوار گزار پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ سب سے اونچا پہاڑ ‘پرے غل’ ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے 11 ہزار 532 فٹ ہے جس کی چوٹیوں نے ہر وقت برف کی سفید چادریں اوڑھ رکھی ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ‘کنڈے غر’ (پہاڑ) ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ ہے۔ علاقے کے اندرونی حصے پہاڑوں سے اس طرح ڈھکے ہوئے ہیں جن کے اندر جانا کافی مشکل ہے۔
جنوبی وزیرستان میں پانچ دریا بہتے ہیں؛ دریائے شکتوئی، دریائے سیژہ، دریائے شہور، دریائے ٹانک زام اور دریائے گومل، ان میں دریائے شکتوئی تقریباً 70 ڈگری جبکہ دریائے گومل 180 ڈگری پر بہتا ہوا نیچے اپنا رخ تبدیل کر کے 90 ڈگری پر آ جاتا ہے۔ مذکورہ دریا سال بھر بہتے رہتے ہیں لیکن بارش کے دنوں ان میں طغیانی آ جاتی ہے۔
جنوبی وزیرستان کی ایک قدرتی شاہراہ گومل ہے۔ دریائے گومل جنوب مشرق میں بہتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کو ملاتا ہے، جنوبی وزیرستان براستہ گومل گڑدوائی گومل زام کے کنارے وانا سے افغانستان کی سرحد انگور اڈہ ملاتی ایک کارپٹ سڑک جاتی ہے۔ شمالی وزیرستان سے پاکستان کی غلام خان تحصیل جبکہ افغانستان کی جانب سے صوبہ خوست واقع ہے۔
وزیرستان کی آبادی
1998 کی مردم شماری کے مطابق وزیرستان کی آبادی چار لاکھ اکتیس ہزار آٹھ سو بانوے نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 2017 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق چھ لاکھ اسی ہزار کے قریب ہے۔ یہاں فوجی آپریشنوں کے باعث لاکھوں لوگ آئی ڈی پیز کی شکل میں ٹانک، ڈی آئی خان، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں امن کی زندگی بسر کرنے کیلئے آباد ہو چکے ہیں۔
چھوٹا لندن
میرانشاہ کے جنوب میں قدرتی خوبصورتی کے شاہکار رزمک کو چھوٹا لندن بھی کہا جاتا ہے جس کے دلفریب نظارے دیکھ کر سیاح دنگ رہ جاتے ہیں۔ رزمک کو مزید چار چاند لگانے کیلئے کیڈٹ کالج موجود ہے جس میں داخل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا کا سب سے خوبصورت ترین پولیس سٹیشن واقع ہے جس کے قریب ہی رزمک ریڈیو سٹیشن اور تقریباً پانچ سو میٹر پر انگریزوں کے زمانے کا تعمیر کردہ گورنر ہاؤس دلکش منظر پیش کرتا ہے۔ گورنر ہاؤس کی دیواریں، چھت، فرش، سیڑھیاں اور جنگلے سب کے سب دیار کی لکڑی سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ زرمک میں چاروں طرف سرسبز پہاڑوں کے درمیان مذکورہ بالا تعمیرات جنت نظیر وادی کا منظر پیش کرتی ہیں۔
چھوٹا لندن سے جنوب مغرب کی جانب ایک گھنٹے کی مسافت پر شوال کے داخلی راستے کے دلکش نظارے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ شوال کے علاقے پش زیارت میں ماہ جنوری سے مارچ کے آخر تک برف باری ہوتی ہے۔
شوال کے راستے میں نہایت دلکش خوشبودار پودے ہیں، جس پودے کو نہ کبھی دیکھا گیا ہے اور نہ ہی اس کی خوشبو کو کبھی سونگھا گیا ہو گا جبکہ راستے میں جگہ جگہ پر پولیس اور فوج کے چیک پوائنٹس قائم ہیں۔ چیک پوسٹوں پر اہلکار سیاحوں کے ساتھ نہایت محبت سے پیش آتے ہیں۔ کئی پولیس اہلکاروں اور فوجی جوانوں نے خود کہا کہ یہ راستے محفوظ اور سیاحت کیلئے بہترین اور خوبصورت جگہیں ہیں۔
وزیر، محسود اور داوڑ قبائل کا شجرہ نصب
وزیرستان کا مطلب وزیروں کا دیس ہے۔ جن علاقوں کو آج وزیروں کا دیس کہتے ہیں تیرہویں صدی میں ان علاقوں میں خٹک، بنوچی، داوڑ، مروت، غلجی، بیٹنی، اُرمڑ اور سید وغیرہ قبیلے آباد تھے جو ابھی بھی یہاں رہائش پذیر ہیں۔ تاریخ کے مطابق ”وزیر” سلیمان کا بیٹا، کرلان کا پوتا اور قیس عبدالرشید کا پڑپوتا تھا جس کی شاخ حضرت داؤد علیہ سلام کے سسر اور فلسطین کے بادشاہ طالوت سے جا ملتی ہے۔
وزیر کے دو بیٹے تھے؛ ایک خدرے اور دوسرے کا نام لالے تھا۔ وزیر قبیلے کی دو شاخیں تھیں؛ ایک درویش خیل اور دوسرا محسود، شجرہ نسب کے مطابق خدرے کے تین بیٹے تھے؛ ایک کا نام موسیٰ تھا جو درویش کہلاتا تھا جو کہ نیک اور فرشتہ نما شخصیت کا حامل تھا اور اب تک وزیروں کا ولی اللہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مزار آج بھی برمل کے علاقے میں ڈیورنڈ لائن کے قریب پاکستان کی حدود میں واقع ہے۔
موسی درویش کے دو بیٹے تھے؛ ایک کا نام اتمان جس کی اولاد کو اتمانزئی اور دوسرے کا نام احمد جس کی اولاد احمد زئی کہلاتی ہے جبکہ دونوں بھائی درویش خیل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ خدرے کے دوسرے بیٹے کا نام محمود تھا، اس کا محسود نامی ایک بیٹا تھا۔
خدرے کے تیسرے بیٹے کا مبارک تھا جو نہایت بزرگ شخص تھے جن کا مزار بھی وزیرستان میں ہے۔ مبارک کا ایک بیٹا گرباز تھا جس کی اولاد گربز کہلائی جاتی ہے۔ گربز قبیلہ جنگوں کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑ کر وزیروں کے شمال مغرب اور خوست کے جنوب مشرق میں داوڑوں کے ساتھ ملے ہوئے پہاڑوں کے درمیان آباد ہے جو افغانستان میں شامل ہے، یہ لوگ پہاڑوں میں رہتے ہیں جو کہ سال میں دو سے تین ماہ تک برف پوش رہتے ہیں۔
لالی وزیر جو کہ نام سے ظاہر ہے لالی خدرے کا بھائی تھا اور وزیر کا بیٹا تھا، یہ قبیلہ شوال کی پہاڑیوں میں شیتکوں میں رہتا تھا لیکن وہاں سے ہجرت کر کے خوگیانیوں کے علاقے میں آباد ہوا جو کہ آج سفید کوہ کے قرب و جوار میں ہے۔ پہلے یہ لوگ دور حاضر کے افغانستان کے صوبے خوست کے پہاڑوں میں آباد تھے جو چودھویں صدی میں مشرق کی طرف پھیل گئے اور ٹوچی کے شمال اور بنوں، کوہاٹ کے سرحدی پہاڑوں میں جا بسے، آہستہ آہستہ درہ کرم سے گومل تک آباد ہو گئے۔
محسود کا والد محمود خدرے کا پوتا اور وزیر کا پڑپوتا ہے۔ محسود کے دو بیٹے تھے؛ ایک علی جس کی اولاد علی زئی کہلاتی ہے جبکہ دوسرا بیٹا بہلول تھا جس کی اولاد بہلول زئی کہلاتی ہے۔
علی کے دو بیٹے تھے؛ ایک فتح جس کی اولاد فتح خیل (پوتیہ خیل) کہلاتی ہے جبکہ دوسرا شاون جس کی اولاد شمن خیل کہلاتی ہے۔
فتح کے دو بیٹے تھے؛ ایک تھا شہاب جس کی اولاد شہاب خیل کہلاتی ہے۔ شہاب کے چھ بیٹے تھے اور یہ چھ پھر شاخ در شاخ تقسیم ہیں۔ فتح کے دوسرے بیٹے کا نام منزئی ہے، اس کی اولاد منزئی خیل بھی شاخ در شاخ تقسیم ہے۔
منزئی خیل قبیلہ اپنے آپ کو پشتونوں کے درانی قبیلے کا حصہ بھی کہتے ہیں اور اپنے اجداد کا نام براق بتاتے ہیں جو افغانستان سے آئے تھے۔ وہ ایک بزرگ تھے جن کی کرامات کی داستانیں مشہور ہیں۔ براق کا بیٹا آمان تھا جس کے چار بیٹے تھے؛ ایک کا نام ملک دین تھا جس کی اولاد ملک دینائی کہلاتی ہے۔ دوسرے کا نام گیدائی تھا جس کی اولا دگیدی خیل ہے۔ تیسرے بیٹے کا نام پالائی تھا جو پالی خیل کے نام سے مشہور ہے جبکہ چوتھے بیٹے کا شمیرائی تھا جس کی اولاد شمیرائی کہلائی جاتی ہے۔
شاون کے چار بیٹے علی، جبار، گلیش اور بادین، موخرالذکر دو بیٹوں کے نام تو اپنی اصلی شکل میں باقی ہیں لیکن علی اور جبار کے ناموں بگڑ کر علی کی اولاد کو خالی خیل جبکہ جبار کی اولاد چیار خیل کے نام سے مشہور ہے۔
محسود کے دوسرے بیٹے بہلول جس کے چار بیٹے تھے؛ اشنگ کی اولاد اشنگی، بندی کی اولاد بند خیل، ایمل کی اولاد ایمل خیل جبکہ نانو کی اولاد نانو خیل کہلائی جاتی ہے۔ اشنگی دو شاخوں میں تقسیم ہیں ملدئی اور محمد، بند خیل پانچ شاخوں میں تقسیم ہو کر نسری خیل، ایکم خیل، طوطیہ خیل، عثمان خیل اور دینور خیل، ایمل خیل پانچ بڑی شاخوں اور آٹھ چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہے۔ پانچ بڑی شاخو ں میں ملکشائی، نظر خیل، عبدلائی، آبا خیل اور مرسنزئی! مانو خیل سات بڑی اور آٹھ چھوٹی شاخوں میں منقسم ہے؛ عبدالرحمن خیل، جلال خیل، کیکاڑائی، عمر خیل، ہیبت خیل، گیگا خیل، نیکزان خیل اور اُرمڑ خیل!
محسود کا شجرہ نسب
محسود بن محمود بن خدری بن وزیر بن سلیمان بن کرلان بن قیس عبدالرشید بطان (پٹھان) بن عیض بن سلول بن عتبہ بن نعیم بن مرہ بن جند بن سکند بن زمان بن حنین بن بہلول بن شلم بن صلاح بن قادر بن عقیم بن فہلول بن کرم بن تحل بن حذیفہ بن منہال بن قیص بن علیم بن شمویل بن رون بن قمر بن ابی بن صلیب بن طلل بن لوئی بن عامیل بن تارج بن ارزند بن مندول بن سلم بن ارمی ابن ساول ملقب بن طالوت جو حضرت داود کے سسر اور بادشاہ فلسطین تھے۔
داوڑ
داوڑ شیتک کا بیٹا کرلان کا پوتا اور قیس عبدالرشید بطان کا پڑپوتا تھا۔ کرلان کے چار بیٹے سلیمان، شیتک، برھان اور خگیان تھے۔ شیتک کے دو بیٹے تانڑی اور چھوٹا بیٹا داوڑ تھا آج بھی اس کی اولاد داوڑ کہلائی جاتی ہے۔
داوڑ پشتونوں کا ایک اہم قبیلہ
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ چھ سو سال کے درمیان مغرب سے اپنے موجودہ علاقے کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ اسی وقت جب ان کے بنوچی اتحادی بنوں کے اردگرد آباد ہوئے تھے۔ انہوں نے شمالی وزیرستان میں دریائے ٹوچی کے ساتھ تنگڑائی تنگی (قریب ٹل) کے درمیان بویا اور دتہ خیل پوسٹوں کے درمیان تقریباً آدھے راستے تک زمین پر قبضہ کیا۔
داوڑ ملی زاد اور تپی زاد قبیلے پر مشتمل ہے اور شنگی مغرب سے لے کر طغڑائی تنگی تک پھیلا ہوا ہے جو کہ بنیادی طور پر زراعت سے وابستہ اور مویشی چراتے ہیں۔ وہ دریائے ٹوچی سے سیراب ہونے والی تلچھٹ والی مٹی پر ترقی کرتے ہیں جبکہ کاشت کیلئے زمین سمیت پانی کی بھی قلت ہے۔
1925 میں وزیروں نے ٹوچی وادی میں داوڑوں سے زمین کا بڑا حصہ خرید لیا جس کا انہیں ابھی تک افسوس ہے۔ داوڑوں کے اپنے قبیلے میں کوئی واضح سیاسی تقسیم نہیں ہے اور ان کے ماضی میں کسی اہم ملا یا ملک کے ساتھ ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ داوڑوں کے اہم حصوں اور ذیلی عناصر کو جغرافیائی طور پر بالایہ داوڑ اور زیریں داوڑ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سکھوں اور قبائل کے درمیان لڑائیاں
پاکستان کے موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈویژن ڈی آئی خان اور اس کے ملحقہ قبائلی ضم شدہ علاقوں میں سکھوں کا عمل دخل تقریباً 12 سال تک رہا۔ اس عرصے میں سکھ حکومت کی زیادہ دلچسپی ان علاقوں سے ٹیکس وصول کرنے تک محدو تھی۔ وہ ٹیکسوں کی وصولی کیلئے ٹانک، بنوں اور ان کے قریبی قبائلی علاقوں پر فوج کشی کرتے تھے جس کی وجہ سے تصادم کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی تھی۔
جنوبی وزیرستان کے قبائل سکھوں کے حملے اور اس کے اثرات سے محفوظ رہے۔ 1893 میں بکرمی کنول نونہال سنگھ ڈی آئی خان آیا اور ڈی آئی خان کو خالصہ قرار دے کر سکھ ریاست میں شامل کر دیا تو سکھ حکومت نے دیوان لکھی مل کو علاقہ دامان کا ایڈمنسٹر مقرر کر دیا، ان کے نواب اللہ داد خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تو دیوان کی سفارش پر نونہال سنگھ نے 16 ہزار سواروں اور ہزاروں کی تعداد میں پیدل فوج سے ٹانک پر حملہ کر دیا۔
سکھوں سے نواب اللہ داد خان شکست کھا کر جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر کانی گرم بھاگ گئے اور بعدازاں افغانستان کے علاقے خوست فرار ہو گئے اور افغان حکمران امیر دوست محمد خان سے فوجی مدد طلب کی لیکن افغان حکمران نے معذرت کی جس پر واپس آ کر نواب اللہ داد خان نے وزیرستان کے قبائل سے مدد طلب کی اور قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے نواب اللہ داد خان کے ساتھ مل کر سکھوں پر دو بار حملہ کیا جس میں 7 سو کے قریب سکھوں کو واصل جہنم کیا گیا اور چند ماہ بعد پھر حملہ کر کے ٹانک شہر کو جلا دیا لیکن سکھوں نے اپنے آپ کو قلعہ میں محصور رکھا۔
چوتھی بار قبائل ٹانک شہر پر حملہ آور ہوئے اور وہاں سے غلہ اور دیگر سامان غنیمت کے طور پر لے گئے۔ وزیرستان کے قبائل نے پانچویں بار حملہ کیا لیکن اس بار سکھوں میں اتنی جسارت نہیں تھی کہ مقابلے کیلئے آ جاتے۔ تاریخ کے مطابق محسود اور بیٹنی نے مل کر چھٹا حملہ مشترکہ طور پر ٹانک شہر پر کیا اور شہر پر قابض ہو گئے لیکن نونہال سنگ کی آمد پر وہ واپس چلے گئے۔ تاریخی ورایات کے مطابق درہ گومل کی حفاظت کے سلسلے میں سکھ افواج جنوبی وزیرستان کے علاقے سپین تک پہنچ گئی تھیں اور وزیروں کے ساتھ جنگ میں انہیں اچھی خاصی شکست ہوئی۔
برٹش سامراج کے خلاف جنوبی وزیرستان کی جنگیں اور فقیر ایپی کا کردار
جنو بی وزیرستان میں 1849 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کیخلاف آزادی کی جنگ جاری رہی۔ جنوبی وزیرستان میں ملا پاوندہ، شہزادہ فضل الدین، شمالی وزیرستان میں فقیر ایپی، مولوی گلاب الدین، ملا شیر علی خان اور خیبر میں مولانا سید اکبر مسلح قبائلی لشکروں کی قیادت کرتے رہے۔
انگریزوں کے ساتھ وزیرستان کے قبائلیوں کا پہلا تصادم 1860 میں ہوا جب ٹانک پر حملہ کیا گیا، بعدازاں انگریزوں نے اگست 1877 سے مارچ 1878 تک اپنی مہمات جاری رکھیں جس سے تنگ آ کر انگریزوں اور قبائلیوں نے صلح کر لی۔
جنوری 1879 میں تین دفعہ قبائلیوں نے تین بار ٹانک پر حملہ کیا۔ 1881 میں دوسری فوجی مہم میں ناکہ بندیاں کیں بالآخر تنگ آ کر 1890 میں ان قبائلیوں کا وظیفہ جس کو مقامی زبان میں ”ماجب” کہتے ہیں، وہ مقرر کر کے انگریزوں کی گومل تک سپلائی لائن پر جاری کام کو دبانے کی ناکام کوشش کی۔ 1893 میں جب انگریز ڈیورنڈ لائن پر کام کر رہے تھے تو محسود قبائل نے حملہ کر کے برٹش کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1894 میں انگریزوں نے وانا پر قبضہ کر لیا۔
یاد رہے کہ وزیرستان کے قبائلیوں نے مغل دور سے انگریزوں کے دور تک اپنی آزادی و خودمختاری برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی تھی اور مشہور سیاسی و مذہبی پیشوا پیر افغان کی قیادت میں آزادی کی جنگیں لڑیں۔ پیر افغان پر اکبر بادشاہ شک کرتے کہ کہیں وہ شیر شاہ سوری ثابت نہ ہو۔ پیر افغان کا تعلق اُرمڑ قبیلے سے تھا جو جنوبی وزیرستان کے علاقے کانی گرم میں رہتے ہیں۔ بعدازاں آپ مردان آ گئے اور وہیں انتقال کر گئے۔ آپ کے دو بیٹے جلالہ اور کمالہ بہت مشہور ہوئے جبکہ مردان میں مشہور ندی جلالہ آپ کے ہی بیٹے کے نام سے منسوب ہے۔
ملا پاوندہ نے انگریزوں کیخلاف خفیہ کاروائیاں شروع کیں جس میں محسود قبیلے اور داوڑ قوم نے آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا اور آپ کی رہائش کا بندوبست کیا جبکہ شمالی وزیرستان میں داوڑ قوم نے آپ کو گھر تحفہ کیا۔ عیدک میں بزرگ عالم دین مولوی گلاب دین کے مرید ہوئے جنہوں نے پاوندہ میں چھپی روحانیت کا ادراک کیا۔ ملا پاوندہ 1893 سے 1913 تک مسلسل 20 سالوں تک برطانوی قابض فوج کیخلاف مسلح جہاد میں برسرپیکار رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے متعدد گوریلا کاروائیوں کے علاوہ کئی نامور جنگیں بھی لڑی ہیں۔
پاوندہ کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے 14 سالہ بیٹے فضل الدین کو شہزادہ بنایا گیا جنہوں نے کم عمری میں انگریزی فوج کو آڑے ہاتھوں لیا۔ شہزادہ فضل الدین کے جھنڈے تلے وزیرستان کے قبائل لبیک کہہ کر جمع ہوئے۔
جب تیسری افغان جنگ کے بعد قبائل جنگ کرتے تھک گئے تو شہزادہ فضل الدین بھی تھک کر ہار مان بیٹھے۔ اس دوران مجاہد ملت فقیر ایپی نے آ کر شہزادہ فضل الدین کے ساتھ ہاتھ ملایا جس سے شہزادہ کے حوصلے بلند ہو گئے جنہوں نے فقیر ایپی کو کافی مالی مدد دے کر رخصت کیا۔
دسمبر 1939 کے آخری ایام میں جب ملا شیر علی خان کا مانڑے کلی سے واپسی کا پروگرام تھا فقیر ایپی نے انہیں غازیوں کے خلیفہ کے لقب سے نوازا۔ انہوں نے 500 غازیوں پر مشتمل لشکر تیار کیا، ستمبر کو ایک سو غازیوں نے ڈی آئی خان کے چودہ دیہات پر ہلہ بول دیا جس میں ہندو قتل و زخمی ہوئے۔ انگریزون نے ٹیلی فون کے ذریعے ہر جگہ ناکہ بندیاں کیں اور وزیرستان پر بمباری شروع کر دی۔ فقیر ایپی اور ان کے ساتھی جہاں جاتے فضائی بمباری ان پر شروع ہو جاتی تھی۔
وزیرستان کی روایات
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے رہائشی نہایت پرخلوص اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ وہاں ہر شخص ہر کسی کا مہمان ہے۔ اگر دوسرے شہر سے کوئی اجنبی آ جائے اور علاقہ مکینوں کے دروازے پر دستک دے کہے کہ وہ مہمان ہے تو گھر کے فرد پر فرض ہے کہ اس کی رہائش اور قیام و طعام کا بندوبست کرے۔
یہاں فوتگی پر لواحقین کے گھر میں کئی دن تیار کھانا بھجوایا جاتا ہے اور ان کے مرد حضرات کو اپنے گھروں میں ہفتوں تک کھانے کی دعوت پر بلاتے ہیں چاہے وہ خاندان دس افراد کا ہو یا سو افراد پر مشتمل ہو۔
قبائلی روایات میں اگرچہ آئی ڈی پیز بننے کے بعد کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر پھر بھی یہاں پر ہر عمر رسیدہ بزرگ کے سر پر دستار، جوانوں کی پگڑی اور نوجوانوں کے سروں پر چترالی ٹوپیاں واضح نظر آتی ہیں۔
قبائلی اضلاع میں انضمام کے بعد بندوق کی نمائش مکمل طور ختم ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کے بالمقابل حجرے کا بندوبست پایا جاتا ہے جس میں مہمانوں کیلئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہوتے ہیں جبکہ گھروں کی تعمیر اس انداز سے کی جاتی ہے کہ دیواریں قلعہ کی شکل اختیار کئے ہوتی ہیں۔ بیشتر گھر ایکڑوں اور کنالوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں آج بھی پینٹ شرٹ کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور سر پر ٹوپی نہ ہونے کو روایات کی پامالی سمجھا جاتا ہے۔
وزیرستان کو صوبے میں ضم کرنے کے بعد حکومت نے جہاں بجلی کے پول گاڑ دیئے ہیں تو وہیں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے اور موبائل سگنلز جزوی طور پر بحال ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت سرکاری دفاتر تک ہی محدود ہے، وہ بھی لینڈ لائن کے ذریعے بحال ہے۔
یہاں افغانستان بارڈر کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں افغان موبائل کنکشنز کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان موبائل صارفین کو سگنلز میں مشکلات کا سامنا ہے۔
معیشت اور طرز زندگی مال مویشی کے علاوہ کاشتکاری ہے جبکہ اناج میں گندم کو فوقیت حاصل ہے۔ پانی کی قلت کے باعث زیادہ تر رہائشیوں نے بور کیا ہوا ہے۔ جو لوگ اپنی زمینیں نہیں رکھتے وہ افراد شراکت کر کے نصف اناج پر دوسروں کی زمینوں کو کاشت کرتے ہیں۔
خواتین عموماً پانی اور جلانے والی لکڑیوں کو ذخیرہ کرتی ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں چھوٹی کھجوریں ہوتی ہیں جن کو مقامی زبان میں مازری کہتے ہیں جو ایک مفید خام مال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے چپل، چٹائی، خیمے، رسی، چارپائی کی بان وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ اس کے پھل کو پاٹوے کہا جاتا ہے۔
وزیرستان کی شہد کافی مشہور ہے جبکہ جنگلی پھلوں میں کنڈولے، زفتے، شمدی، پامنی، کرکیچو اور جنگلی پیاز قیمتی اشیاء میں شمار ہوتے ہیں جن میں صرف پامنائی اور کرکیچو کو آج کل قیمتی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ گھاس بھوس اور جنگلی کھجوروں سے خیمے بنا لیتے ہیں جنہیں چھپر اور خینے کہتے ہیں۔ وزیرستان کے بیشتر افراد فوج، پولیس، ایف سی اور ڈی ایم جی گروپ کے اعلی افسران ہیں۔