”ڈیڑھ لاکھ سے تو اب ایک کمرہ بھی نہیں بن سکتا”
انور زیب
ڈیرہ اسمعیل کا شمار خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جو گزشتہ سال سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اس ضلع میں 75 ہزار سے زائد گھر سیلاب سے متاثر ہوئے جن میں سے 34 ہزار سے کچھ کم مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ 41 ہزار سے زائد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
اگرچہ حکومت نے اس ضلع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کیلئے اعلانات کئے تاہم آج بھی بہت سے سیلاب زدگان ایسے ہیں سروے میں جن کا اندراج نہیں ہوا اور جس کی وجہ سے وہ امداد سے محروم رہ گئے، ”میرا نام گلاب خان ہے، چشمہ شوگر مل کے ساتھ ٹچ ہیں، ہمارے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں اور تاحال ہمارا کسی نے بھی سروے نہیں کرایا، نقصان بھی بہت ہوا ہے، ہمارے پاس فوٹوز، سب کچھ ہے، بالکل ہمارے پاس ویڈیوز بھی ہیں لہٰذا مہربانی فرما کر ہمارا بھی نام سروے میں شامل کیا جائے، ہمارا سروے نہیں کرایا گیا، تقریباً چھ سات کمرے تھے، ہم نے ضلعی انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی غور نہیں کیا گیا، انہوں نے تحصیلدار کے پاس بھیجا، تحصیلدار نے مانیٹرنگ سیل بھیجا، لیکن کسی نے بھی غور نہیں کیا بلکہ ہماری درخواستیں ہی خارج کر دی گئیں اور بتایا کہ آپ لوگوں کا سروے نہیں کرایا جا سکتا۔”
تحصیل کلاچی کے علاقے بدر کے رہائشی عمران اور دیگر سیلاب زدگان بھی حکومت کی جانب سے کرائے گئے سروے پر تنقید کرتے ہیں اور یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت نے صرف اپنے منظور نظر افراد کے ساتھ ہی تعاون کیا ہے، ”ہمارا جو نقصان ہے تو وہ تو اتنا زیادہ ہے کہ حد سے زیادہ ہے تو اس میں جب سروے کیا گیا تھا تو سروے میں، میں پہلے بھی ایک گزارش کر چکا ہوں اور دوبارہ بھی کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے جتنا بھی کام کیا ہے ناں تو اس کے بعد، یعنی جس کی بھی کوئی دعا سلام تھی یا سمجھیں کہ جس نے کوئی کھانے پینے کا کہا ہے تو اس کی وجہ سے انہوں نے اس کا جو نقصان اتنا ہوا بھی نہیں ہے ناں تب بھی ان کو انہوں نے چار، چار لاکھ روپے دیئے ہیں۔”
”ہمارے گاؤں میں سیلاب آیا ہے ہماری ایک چیز پانی میں بہہ گئی اور ہمارا گھر نہیں رہا اور حکومت والوں نے ہمیں ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیا، اور جن کا زیادہ نقصان ہوا انہیں ڈیڑھ لاکھ دیا، جن کا تھوڑا ہوا ہے انہیں چار لاکھ دیا تھا، ڈیڑھ لاکھ سے تو اب تو ایک کمرہ بھی نہیں بن سکتا۔” ایک خاتون نے ٹی این این کو بتایا۔
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر ڈیرہ اسمعیل خان فرحان کا کہنا تھا کہ سیلاب زدگان میں جن لوگوں کے نام سروے میں رہ گئے تھے یا جنہیں معاوضہ نہیں دیا گیا تو انہیں اپنے ضلعی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر سے رابطہ کرنا چاہئے اور اپنی مشکل درخواست کی شکل میں پیش کریں تو ضلعی انتطامیہ ان کے ساتھ تعاون/مدد کرے گی، ”کہ جن لوگوں کا سروے رہ گیا ہے وہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر سے رابطہ کریں اور اپنی درخواست وہاں پے جمع کرائیں، تو متعلقہ تحصیلدار ہے یا وہاں پے جمع کرا دیں تو ویر فیکیشنز کے بعد ان کا جو کیس ہے وہ کلیئر ہو جائے گا تو یہ اس کا طریقہ کار ہے، اور لوگ تو آ رہے ہیں، ہمارے پاس ایپلی کیشنز آ رہی ہیں لیکن اس میں ضروری یہ بھی ہے کہ صرف جینوئن لوگ ہی آئیں، اگر کوئی بندہ ایسی کوشش کرے گا کہ اس کا سروے ہو چکا ہے اور وہ دوبارہ وہاں سروے کرانے کی کوشش کرے گا یا کسی اور طریقے سے جعلسازی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے خلاف پھر سخت قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔”
یاد رہے کہ صرف ڈی آئی خان ہی نہیں صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی سروے اور امداد سے محروم رہ جانے والے سلاب زدگان مشکلات کا شکار ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے کئے گئے سروے اور دیئے گئے معاوضوں پر نظرثانی کریں۔