بازار مسگراں کی ساری رنگنیاں ماند پڑ گئی ہے
شازیہ نثار
تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو پشاور کی تاریخ میں کئی قدیمی رنگ آج بھی نظر آتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشاور کا ثقافتی ورثہ اب نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے اورکئی تاریخی مقانات بھی اب صرف کھنڈر بن چکے ہیں اسی طرح کئی قدیمی اور ثقافتی کاروبار بھی اب ختم ہوتے ہو رہے ہیں۔ پشاور کے صدیوں پرانے تاریخی بازار مسگراں میں پہلے ہر طرف چمچمامتے تانبے کے برتنوں پر خوبصورت نقش نگاری کے مختلف نمونے نظر آتے تھے جس بازار میں اپنے وقت میں 35 سے زائد دکانیں تھی مگر آج اس بازارمیں کاپر یعنی تانبے کے کاروبار سے وابستہ صرف ایک دکان باقی ہے۔
کہتے ہیں کہ پشاور کی شان یہاں کے ظروف ہیں. دلفریب نقش و نگار اور آنکھوں کو خیرہ کرنے والے تانبے کے ان برتنوں کے بغیر کسی زمانے میں باورچی خانہ کو ادھورا سمجھا جاتا تھا مگر آج مہنگائی کی وجہ سے ان خوبصورت برتنوں کی مانگ بھی کم پڑ گئی ہے۔
تین نسلوں سے میس کے کاروبار سے وابستہ دکاندار کا کہنا تھا کہ اب تانبے کے برتن خریدنے والے کم اور بیچنے والے زیادہ آتے ہیں پورے دن میں ایک گاہک بھی خریدنے نہیں آتا البتہ جن کے پاس گھروں میں پرانے مسین کے برتن موجود ہوتے ہیں وہ ہمیں بیچ کر چلے جاتے ہیں۔ اب ان دلکش برتنوں کی مانگ مہنگائی کی وجہ سے بالکل کم ہو گئی ہے۔ بازار میں میں اب تانبے کی جگہ سٹیل کے برتن، سلور اور اور شیشے کی برتنوں نے لے لی ہے تانبا اب بہت مہنگا ہو چکا ہے قیمتیں اب کاریگروں کے قوت خرید سے زیادہ ہو گئی ہیں پہلے پشاور کے لوگ خود تانبا خریدتے اور خود ہی گھروں اور دوکانوں میں اس پر نقش و نگار کرتے تھے اور مارکیٹ میں بیچتے مگر اب اس کے کاریگربھی ختم ہو گئے اور کاروبار بھی بس آہستہ آہستہ منہدم ہو رہا ہے۔
پہلے ہم تانبے اور پیتل کے برتنوں پرھاتوں سے مغلیہ آرٹ، کمشمیری اور پشاوری کام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے قدیمی اور ثقافتی نقش بھی بناتے تھے جو آنکھوں کو اب بھی اچھے لگتے ہیں مگر مہنگے ہونے کی وجہ سے اب کوئی ان برتنوں کو خریدتا نہیں، بس ان خوبصورت ثقافتی برتنوں کو دیکھ کر چلے جاتے ہیں ماضی میں جو لوگ گھریلوں استعمال کیلیے تانبے کے برتنوں سے لگاؤ رکھتے تھے اب وہ افراد ان برتنوں کو گھریلو سجاوٹ کے لیے خرید کر شوق پورا کرتے ہیں۔ لاہور، کراچی اور غیر ملکی جب کبھی یہاں کا وزٹ کرتے ہیں تو گھر کے ڈیکوریشن کیلیے شوق سے لے جاتے ہیں۔
سونے جیسے رنگ کے ان برتنوں اور سجاوٹی استعمال کے اشیاء میں کاریگر اتنی صفائی سے نقش بناتے اور لوح قرآنی کو کندہ کرتے ہیں کہ یہ چمکتے رنگ اور نقش و نگار دل کو خود بخود موہ لیتے ہیں۔
قصہ خوانی میں بازار مسگراں کا نام تو رہ گیا مگر یہاں پر ملنے والے دلکش اور نایاب تانبے اور پیتل کے سنہرے برتنوں پر وقت کے ساتھ مہنگائی کی دھول پڑگئی ہے۔