امداد: کوئٹہ انتظامیہ کا موقف درست یا متاثرین سیلاب کا؟
عبدالکریم
بلوچستان میں رواں برس سیلاب کے باعث ہزاروں مکانات کو مکمل اور جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کے مکانات کی تعمیرنو کا کام موسم سرما کی آمد کے بعد بھی شروع نہیں کیا گیا ہے۔
کوئٹہ کے قادری آباد گاؤں کو بھی حالیہ مون سون بارشوں کے دوران سخت نقصان پہنچا ہے جہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سردیاں آنے کے بعد وہ شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
مذکورہ گاؤں کے مکین مراد احمد بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے گھر کے چار کمرے بارش کی وجہ سے زمین بوس ہوئے اور آج وہ اپنے خاندان سمیت ایک خیمے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ”جب بارشیں ہوئیں تو ہمارے گھروں کو بہت نقصان پہنچا، اپنے ذاتی مکان کی بات کروں تو اس میں چار کمرے مسمار ہوئے، پانی اندر داخل ہوا تو دیواریں زمین میں دھنس گئیں جبکہ لکڑیاں ٹوٹ گئیں، ہمارا جو ہمسایہ تھا اس کے گھر میں خیمہ نصب کیا اور اپنے بال بچوں کو وہاں پر منتقل کر دیا، اس کے بعد جب بارشیں تھم گئیں تو اس کے بعد اپنے گھر پر کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ اسے بحال کر دیا۔”
مراد کہتے ہیں کہ تاحال حکومت کی جانب سے انہیں کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی تاہم سحر نامی ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے انہیں دو گاڈر اور آٹھ بانس ملے ہیں جو ان کے بقول ناکافی ہیں، ”ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا ہے، گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے اور ادھر سردیاں بھی آ رہی ہیں جبکہ قادری آباد کے جتنے لوگ ہیں سارے غریب ہیں، ان کے بچے سارا دن کاغذ اور کچرا جمع کرتے ہیں اور شام کو گھروں کو لوٹتے ہیں اور اسی پر وہ اپنا گزارہ چلا رہے ہیں، اسی سے آگ جلاتے اور اپنا گزارہ چلاتے ہیں۔”
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پراونشل ڈزاسٹر منیجمنٹ (پی ڈی ایم اے) کی ماہ دسمبر کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں بارش اور سیلاب کے باعث آٹھ ہزار 50 گھروں کو مکمل طور پر جبکہ 10 ہزار دو سو گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبدالشکور کہتے ہیں کہ قادری آباد میں کوئی ساڑھے تین سو خاندان رہتے ہیں اور مذکورہ گاؤں میں بارشوں نے 95 فیصد گھروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے مکانات کی تعمیرنو کیلئے سروے کرایا گیا ہے، جبکہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بحالی کا کام شروع کر رکھا ہے تاہم جو استطاعت نہیں رکھتے وہ آج بھی امداد کے منتظر ہیں، ”چونکہ یو این ایچ سی آر کی پالیسی میں کچھ وقت لگا ہے، دو تین ماہ لگے ہیں کہ پہلے ان کا سروے کرایا جائے گا اور پھر ان کی مدد کی جائے گی تو ان میں سے اکثر لوگ جو تھوڑی بہت استطاعت رکھتے تھے، انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں کو تعمیر کرنا شروع کر دیا تھا اور جہاں تک وہ بنا سکتے تھے انہوں نے بنائے اور جو کام باقی رہ گیا وہ ابھی تک رہتا ہے، چونکہ میں اس گاؤں میں رہتا ہوں اس لئے مجھے معلوم ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تین وقت میں دو وقت کی روٹی نہیں کھاتے، ایک وقت کی بھی نہیں کھاتے تو سردیوں کی آمد کے ساتھ یہ مزید مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے، ان کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گے (کیونکہ) ان کے پاس جلانے کو کچھ نہیں ہے، خوراکی مواد مہنگا ہے، تو اکثر گھرانے ایسے ہیں کہ ان کے بچے کچرا جمع کرتے ہیں، شام کو آٹے کا تھیلا لینے کی ان کی بساط نہیں ہے، ان کے بچے جو کچرا جمع کرتے ہیں اسے بیچ کر یہ آٹا خریدتے ہیں اور پھر گھر کے باقی افراد ان کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔”
عبدالشکور نے بتایا کہ دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ قادری آباد میں رفع حاجت کی جگہیں (واش رومز) بھی متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بزرگ اور خواتین مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں، ”پہلی مرتبہ یہ جو آخری بار بارش ہوئی تو سو میں سے ننانوے فیصد واش رومز متاثر/تباہ ہو گئے کیونکہ ان لوگوں نے گھر کے کمرے تو نسبتاً گزاہ حال بنا رکھے تھے لیکن واش روم کا انہیں اتنا خیال نہیں تھا، پہلی مرتبہ سب کے واش رومز خراب ہیں، میں تو کہوں گا کہ سو میں سے ننانوے فیصد واش رومز خراب ہیں جس کی وجہ سے یہ متعدد قسم کی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔”
دوسری جانب کوئٹہ کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود ہی متاثرین سیلاب کی مدد کرے اور اس حوالے سے کوئٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر نثار احمد لانگو کا کہنا تھا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق سروے رپورٹ وفاق کے ساتھ شیئر کی گئی ہے تاہم ابھی تک انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ”دیکھیں وفاق کو ہم نے بھیجی ہوئی ہیں، وفاق کے پاس ہیں این ڈی ایم اے کے پاس لسٹیں ہیں اب وہاں سے جیسے ہی کوئی اپروول آتا ہے، پیسے آتے ہیں مثال کے طور پر جس حساب سے چاہے پیسہ آتا ہے یا گھر بنانے کا کوئی سسٹم، فیصلہ آتا ہے، فیصلہ وہاں پے پینڈنگ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ پی ڈی ایم اے کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ متاثرہ خاندانوں کو سردیوں کے لئے گرم کپڑوں اور کمبلوں کا بندوبست کیا جا سکے تاہم دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تاحال ان کے ساتھ اس قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا گیا ہے۔