دیربالا: پن چکیوں کی آوازیں سیلاب کی نذر ہو گئیں
ناصرزادہ
درہ عشیری اور کوہستان کے دریا کنارے پانی کا شور اور پن چکیوں کی آوازیں ہوتی تھیں لیکن گزشتہ خونی سیلاب ان پن چکیوں کو بہا کر لے گیا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دیر اپر کے مختلف علاقوں میں کل 112 پن چکیاں تھیں جن میں سے 32 کو سیلاب بہا لے گیا ہے جس کی وجہ سے پن چکی مالکان مشکلات کا شکار ہیں۔
گل خان کا تعلق الماس (علاقے کا نام) سے ہے اور ان کا خاندان پچھلے سو سال سے پن چکی کا کاروبار کرتے ہیں، الماس میں ان کی پن چکی سمیت دس پن چکیاں سیلاب میں تباہ ہو گئی ہیں، اس حوالے سے گل خان کہتے ہیں، ”ان پن چکیوں کو سو سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے، ابھی جو سیلاب آیا تھا وہ انہیں بہا کر لے گیا، اب ہمارا کوئی اور زریعہ بھی نہیں ہے کہ جا کر اپنے لئے کوئی روزگار یا کاروبار شروع کریں، اللہ کے فضل سے ہمارے گھر کا نظام اس سے چل رہا تھا، والد صاحب اس میں ہوتے تھے، وہ بھی اب بوڑھے ہو گئے ہیں کام کے سلسلے میں کہیں اور جا بھی نہیں سکتے، انہوں نے کہا کہ یہ پن چکی ان کیلئے ہم بحال کر دیں، اس میں لگے رہیں گے گھر کا نظام چلاتے اور گزارہ کرتے رہیں گے۔”
گل خان نے مزید بتایا، ”ان میں صرف دو پن چکیاں تھوڑی بچی ہوئی ہیں باقی آٹھ پن چکیوں کو سیلاب بہا لے گیا ہے، حکومت کی طرف سے کوئی نہیں آیا جبکہ فارم ہم نے دو تین جمع کر رکھے ہیں لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔”
اگر ایک طرف سیلاب کی وجہ سے تباہ شدہ پن چکیوں کے مالکان مشکلات کا شکار ہیں اور ان کی آمدن کا زریعہ ختم ہوا ہے تو دوسری جانب مقامی لوگ بھی گندم اور مکئی کے دانے مشینوں سے پیسنے پر مجبور ہیں تاہم ان کے بقول اس آٹے کا ذائقہ پن چکی سے پیسے گئے آٹے جیسا نہیں ہے۔
اس حوالے سے مقامی رہائشی بہارالدین کہتے ہیں، ”ٹریکٹر والے کے پاس اب لے کر جاتے ہیں جو اس کا ستیاناس کر دیتا ہے، روٹی بھی جس سے پھر نہیں پکائی جاتی، ان پن چکیوں کی وجہ سے ہم بہت متاثر ہوئے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ امداد کرے تاکہ یہ پن چکیاں جلد سے جلد بحال ہو سکیں۔”
سیلاب سے متاثرہ مکانات کیلئے تو حکومت نے معاوضوں کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاہم پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے متاثرہ پن چکی کے مالکان کیلئے کوئی معاوضہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مالکان نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک بار پھر اپنی پن چکیاں چالو/بحال کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔