تہذیبی حملوں کا سدباب ـــ مگر کیسے‼
عبدالمعید زبیر
جب سے ٹرانسجینڈر ایکٹ کا شور برپا ہوا ہے، فریقین کی جانب سے مختلف سرگرمیاں جاری ہیں۔ کوئی لکھ رہا ہے تو کوئی بول رہا ہے، کوئی قانونی چارہ جوئی میں شریک ہے تو کچھ بحث و مباحثہ میں مشغول ہے۔ کہیں بریفنگز چل رہی ہیں تو کہیں عورت مارچ منعقد کیے جا رہے ہیں۔ ہم بھی متعدد بار اس موضوع پر لکھ چکے لیکن خواہش تھی کہ وفاقی شرعی عدالت کی کاروائی دیکھیں اور قانونی بحث میں شرکت کا اشتیاق بھی کہ مزید اس بارے جانا اور سمجھا جا سکے۔
ہمارے بہت ہی فعال اور قابل دوست ایڈووکیٹ عبدالرحمن، جو خود بھی ان پٹیشنز میں فریق ہیں، کے ہمراہ 29 نومبر کی سماعت میں شرکت کا موقع ملا۔ پتہ چلا کہ اب تک کی سماعتوں میں مدعیان اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں اور امروز ٹرانسجینڈر ایکٹ کے حامی اپنے دلائل کا آغاز کرنے والے ہیں۔
ریسپانڈنٹس کی جانب سے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے معزز عدالت کو بتایا کہ وہ اس قانون کی ڈرافٹنگ، تیاری اور اس پر بحث و تمحیص میں بنفس نفیس شامل تھے۔ دلائل کا آغاز اس بات سے کیا کہ خنثی اور خصی eunuchs افراد ٹرانسجینڈرز میں شامل نہیں، یہ بات کہہ کر انہوں نے مدعیان کے دعوے کو مزید مضبوط کردیا۔ لیکن ساتھ ہی کمزور توجیہہ پیش کرنے لگے کہ انہیں قانونی تحفظ اور مراعات دینے کے لیے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ وجہ شاید وہ بیان نہیں کرسکے۔ پھر سورة الشورى کی آیت ۴۹ اور ۵۰ کی غلط تفسیر وتشریح پیش کی اور کہا کہ تفسیر احمد شاکر (مصری) نے کی ہے۔ حیرانی ہوئی کہ ہم کیسے اتنے دھڑلے کے ساتھ اپنی مرضی سے تفسیر کرنے اور مرضی کے معانی دینے پر جری ہو سکتے ہیں۔ اپنی مرضی کی تفسیر کرنے کے لیے ما یشاء کے لفظ کا انتخاب کیا کہ اس لفظ کی آیت مذکورہ میں چار مرتبہ کے تکرار سے مراد واضح ہے۔ یہ لفظ عموم کو شامل ہے، لہذا اس کی تشریح ہم یوں کریں گے وغیرہ ۔
تیسری بات یہ کی کسی بھی فرد کے اندر پیدا ہونے والے جنس کی تبدیلی کے احساس کو ذہنی خلل نہیں کہہ سکتے۔ جس پر شعر سناتے رہے اور الٹی سیدھی تاویلات پیش کرتے رہے۔ فقہاء کرام کو اس معاملے میں ناسمجھ سمجھتے رہے۔ عدالت کے اس استفسار پر کہ کیا ایک مرد یا عورت کو ٹرانس جینڈرز کی فیلنگ کسی بھی عمر میں آ سکتی ہیں اور کیا شادی شدہ افراد بھی اس قانون کے مطابق ٹرانس جینڈر بن سکتے ہیں؟ پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ شادی شدہ افراد پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بنچ کے فاضل جسٹس خادم نے سوال کیا کہ قانون کی وہ دفعہ پڑھ کر سنائیں جو آپ کے اس جواب کی تائید کرتی ہو، جس پر کافی وقت ملنے کے باوجود کوئی ایسی دفعہ پیش نہ کر سکے۔ متعدد بار ان کی باتوں پر فاضل جج کی طرف سے استفسارات کے جواب میں فرحت اللہ بابر ہر دفعہ اپنی فائلوں کو کھنگالنا شروع کر دیتے لیکن جواب نہ دے پاتے۔ جس پر فاضل بنچ نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس دلائل نہیں ہیں تو بس صاف صاف بتا دیں۔ ایک موقع پر انہوں نے قلت وقت کا بھی بہانہ بنایا تو عدالت نے کہا کہ آپ کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ آپ ہمارے جوابات دیں، چاہے مزید وقت لے لیں۔ مگر وہ کسی بھی جواب دینے سے قاصر رہے۔
متعدد مواقع پر چیف جسٹس نے فرحت اللہ بابر کو احساس دلایا کہ آپ ایک سینیٹر رہے ہیں اور آپ ہمارے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ فرحت اللہ بابر نے عدالت کو بتلایا کہ یہ قانون پاس کرنا ہماری ریاست کی مجبوری بھی ہے کہ ہم نے مختلف بین الاقوامی اداروں اور GSP+ کے ساتھ معاہدات کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے ریاست کو مالی فوائد ملتے ہیں. اس دلیل پر فاضل عدالت نے سرزنش کی، کہ یہ غیر متعلقہ باتیں نہ کریں۔ ہمیں یہ بتائیں کہ یہ قانون کس طرح سے قران وحدیث سے ہم آھنگ ہے۔ انہوں نے(UDHR اور ICCPR) International Covenant on Civil and Political Rights جیسے معاھدات کو بھی بطور دلیل پیش کیا لیکن یہ دلیل بھی عدالت کی جانب سے مسترد کر دی گئی۔
معزز سینیٹر غالبا تجاھل عارفانہ برت رہے تھے کہ پاکستان OIC کا ممبر ملک ہونے کے ناطے ”اعلان قاھرہ“ کا signatory بھی ہے. کچھ معاھدے اسلامی ممالک اور تنظیموں سے بھی کر رکھے ہیں جن کی درپردہ بار بار عہد شکنیاں اور خلاف ورزیاں ہمارے لیے معمول کی بات ہے. SOGI پر اسلامی ممالک کی تنظیم کے ماتحت (IPCHR) INDEPENDENT PERMANENT COMMISSION OF HUMAN RIGHTS نے ٹرانسجینڈرزم کے باطل نظریئے کو مسترد کر رکھا ہے اور اپنی سفارشات میں اسے اسلام کے عائلی نظام پر حملہ قرار دے رکھا ہے.
بہرحال ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیہ میں جب کسی بھی طرح سینیٹر موصوف معزز عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو یہ موقف اختیار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے پہلے اس بل کو شریعت کے مطابق کہا لیکن بعد میں بوجوہ اپنی رائے بدل گئے ہے۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ آپ کے پاس اس بابت کوئی دستاویزی ثبوت ہیں تو پیش کریں لیکن پھر پہلے کی طرح فائلز الٹ پلٹ کرنے کے باوجود فرحت اللہ بابر کوئی دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہے جس پر معزز عدالت نے کہا کہ نظریاتی کونسل ہمیں اپنی رپورٹ پیش کر چکی ہے جو ریکارڈ پر ہے. بعد ازاں فرحت اللہ بابر نے شاید اپنی سبکی کو مٹانے کے لیے ایک دو اشعار سنا کر رخصت لینے میں عافیت سمجھی اور التماس کی کہ کہ عدالت مجھے مزید تیاری کا موقع دے۔
فرحت اللہ بابر کے بعد ٹرانس جینڈرز کی جانب سے عائشہ مغل، نایاب علی، ببلی ملک اور شیرکان ملک جو کمرہ عدالت میں امروز بھی موجود تھے اور سابقہ سماعتوں میں بار بار روسٹرم پر آ جایا کرتے تھے، پر سکتہ طاری رہا اور وہ روسٹرم پر نہ آئے تاہم ان کے وکلاء کے جونئیرز یا بجائے کونسل proxy counsels پیش ہو کر مہلت adjourments کی استدعا کرتے رہے جس پر معزز عدالت نے انہیں ہدایات جاری کہ اگلی سماعت 7 دسمبر کو ہوگی اور مکمل تیاری کے ساتھ آئیں.
بہرحال ریسپاندنٹس کے رویہ سے صاف عیاں تھا کہ وہ صرف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں تاکہ ان پٹیشنز کے حتمی فیصلے میں کسی نہ کسی طرح تاخیر ہو۔
نادرا ریگولیشن پٹیشن کی سماعت میں نادرا کے وکیل نے معزز عدالت کو بتلایا کہ نادرا بورڈ نے نادرا ریگولیشن نمبر ۱۳(۱) کی منسوخی کا نوٹیفکیشن کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے اور اس نوٹیفکیشن کو گزٹ مین طباعت کی خاطر پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کو بھجوا دیا گیا ہے۔
اس ساری صورت حال میں راقم یہ سوچنے لگا کہ ریسپانڈنٹس کے پاس اپنے موقف کی تائید میں شرعی دلائل نہیں ہیں۔ مگر باطل قوتیں اور عالمی استعمار ہماری حکومتوں کو قرضوں اور معاہدات کی صورت میں اپنے قبضے میں لیتا ہے۔ پھر اپنی چکنی چپڑی باتوں اور امداد دے کر ہمارے اندر موجود چند ہم خیال لوگوں کو استعمال کرتا ہے. ہماری NGOs کو engage کرتا ہے پھر عالمی استعمار اور یہ NGOs ایک منظم انداز میں تشہیری اور ابلاغی مہم چلاتا ہے. سبز باغ دکھلا کر ہماری نسلوں کو ورغلا کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرتے ہیں.
جب تک سارا کام ہو چکا ہوتا ہے، تب تک ہم اپنے زعما کو یہ بات سمجھانے سے بھی قاصر رہتے ہیں کہ یہ معاملہ بہت خطرناک ہے، ہماری نسلوں کے لیے زہر قاتل ہے مگر اس وقت تک سروں سے پانی گزر چکا ہوتا ہے۔ اگر کوئی کامیابی مل بھی جائے تو ہر کوئی کریڈٹ لینے کے چکر میں ایک دوسرے سے آگے بھاگ رہا ہوتا ہے اور اصل کردار کہیں کھو جاتے ہیں۔ ہمارے علماء، زعماء، مذھبی قائدین اور ائمہ کرام کو ہر دم ایسی سازشوں سے بے دار، چوکس اور چوکنا ہونا ہو گا۔ عوامی مہم کو منظم اور تیز کرنا ہو گا۔ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے، اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران اپنی عیاشیاں چھوڑیں، اس قوم کے مستقبل کی فکر کریں، کل اللہ کے ہاں جواب دہ ہونا ہے، اس کی فکر کریں۔
ہم مذہبی بھی لوگ ایک منظم، چوکس اور بیدار مغز لوگوں پر مشتمل ایک فعال پلیٹ فارم تشکیل دیں جو ایسی قانون سازی یا تہذیبی حملوں کا پیشگی سدباب کرے، ایسے قوانین کو روکنے کے لیے عوامی بیداری مہم چلائے نیز متعلقہ اداروں کی سرگرمیوں پر باقاعدہ پہرہ دیں، ان کے کاموں پر نظر رکھیں تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت نہ کر پائے۔