بلاگزلائف سٹائل

نیا سفر ہے، کسی ڈراوٗنی فلم کا اسکرپٹ تو نہیں!

سندس بہروز

 میری ایک دوست ایک نیا کاروبار شروع کررہی ہے۔ کچھ خاموش سی لگی۔ پوچھنے پر بتایا کہ کاروبار کے حوالے سے کچھ بے یقینی کا شکار ہے کہ کامیاب ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ اس کی مختلف وجوہات بتائیں جن میں لوگوں کا کاروبار کے حوالے سے منفی معلومات دینا یا پھر اس کی اپنی بے یقینی کا شکار سوچ جو کسی ایک نہج پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔

اس کی بلاوجہ کی ناامیدی اور منفی سوچ ،جس کی اس کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی، اس نے مجھے ایک بات سوچنے پر مجبور کیا۔ یہ سب کچھ سنی سنائی باتوں کا خمیازہ تھا جو اس کے من میں خوامخواہ کے وسوسے ڈال رہا تھا۔

دیکھیں جی، لوگوں کا تو کام ہے منفی رویوں اور سوچ کو ہوا دینا۔ ان کا کھانا جو ہضم نہیں ہوگا اس کے بغیر۔ پھر بعض لوگوں کے کہنے کا انداز بھی خدشات کو ہوا دیتا رہتا ہے۔

اسے اپنے اوپر اتنا طاری کر لینا کہ بے یقینی کا شکار ہوجائیں صحتمند رویہ نہیں۔

 

نئے آغاز پر حوصلے اور امید کی شاخ بھی تھمائیں

یہ درست بات ہے کہ جب بھی کوئی نیا آغاز ہونے جارہا ہوتا ہے تو اس حوالے سے کچھ خدشات تو موجود رہتے ہیں۔ نئی شروعات کی خوشی اپنی جگہ مگر دل کے پنہاں کونوں میں کسی انہونی کا دھڑکہ سا بھی لگا رہتا ہے۔

کوئی بھی نیا سفر ہو چاہے وہ کوئی تعلیمی ڈگری ہو،نیا کاروبار یا پھر شادی کے بعد کی نئی زندگی کا آغاز، اگر ہم اپنے من کی سنیں اور صرف ان قریبی لوگوں سے دل کی بات کریں جن کے بارے میں آنکھیں بند کرکے یقین ہو کہ جو بھی مشورہ دیں گے وہ ہوشمندی اور حوصلہ افزائی پرمبنی ہوگا۔

اب یہ بھی ٹھیک ہے کہ منفی سوچ مثبت سوچ سے پہلے وارد ہوتی ہے۔  شاید مثبت سوچنے میں زیادہ توانائی صرف ہوتی ہو مگرذرا سی کوشش سے ہم منفی سوچ سے ضائع ہونے والی توانائی کو بچا سکتے ہیں۔

نیا آغاز نئی فکر کو دعوت ضرور دیتا ہے۔ ایسے وقت میں انسان ویسے بھی الجھن کا شکار ہوتا ہے اس لیے یسروا ولا تعسروا کو پلو سے باندھ لینا چاہیے۔

ہمارے اردگرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بات کا بتنگڑ بنائیں یعنی اپنے مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں۔

 

مسائل کا بوجھ دوسروں پرآف لوڈ کرنا              

ہر انسان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہوتے ہیں۔ ہر شخص ہی زندگی کے مختلف طرح کے محازوں پر نبرد آزما رہتا ہے۔

مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارد گرد رہنے والے کئی لوگ صرف اورصرف ان محازوں پر لڑی جانے والی اپنی ذاتی جنگوں کو دوسروں پربھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

مگر ان لوگوں نے زندگی کے کئی محازوں کو کامیابی سے سر بھی تو کیا ہوگا؟ کئی نئی منزلوں تک بھی تو پہنچے ہوں گے؟

صرف اپنے مسائل کا بوجھ دوسروں پر کیوں آف لوڈ کرتے ہیں کہ انہیں بھی ڈرا کر رکھیں۔ خوشی کے لمحات بھی تو ان سے بانٹیں جو نئی شروعات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی نئی منزل پر روانہ ہو رہا ہے تو اسے سفر کے مثبت اور منفی پہلووں سے روشناس کرائیں۔

 

انداز بیاں                   

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں فکرہے اس لیے پہلے سے ہوشیار کر رہے ہیں۔ مگر انداز یوں ہوتا ہے جیسے موت کے کنویں میں چھلانگ لگانے سے پہلے والا احتیاطی ہدایت نامہ شئیر کر رہے ہوں۔ ہوشیار رہنے کے لئے آگاہی کا دوستانہ انداز زیادہ موثر رہتا ہے۔

اور صرف منفی پہلو ہی کیوں ، کیا کوئی مثبت پہلو نہیں؟ مثال کے طور پر روایتی معاشروں میں شادی سے پہلے لوگوں خصوصا لڑکیوں کوجیسے باقاعدہ ڈرائونی فلموں کا اسکرپٹ پٹی کی صورت پڑھایا جاتا ہے۔

اب اچھے بھلے مضبوط اعصاب والا بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جیسے سسرال نہیں اڈیالہ جیل میں باقی کی زندگی گزارنی ہے۔

ساس کو بے رحم بنا کے پیش کیا جاتا ہے اور ظالم کا لفظ تو جیسے بنا ہی نند کے لئے ہے۔  دیورانی کو بھی دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ نوٹ فرمائیں یہ تمام خواتین سے جڑے رشتے ہیں جنہیں پر زیادہ منفی زور ہوتا ہے۔

کوئی نہیں بتاتا کہ اک نیا خاندان ملتا ہے تو پھر آپ کےایک نہیں بلکہ دو گھر ہو جاتے ہیں۔

شروع میں مشکل ہوتی ہے مگر مل کر ان کو حل بھی کر لیا جاتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ مثبت سوچ سے زندگی کا ہر سفر آسان ہو جاتا ہے۔

کسی جگہ تعلیم کے لئے داخلہ لینا ہو  تو یونیورسٹی یا کالج کے ایسے کارنامے اور ایسی تاریخ بتائی جاتی ہے کہ بندہ سوچے کہ اس دنیا میں کوئی یونیورسٹی اچھی ہی نہیں آگے پڑھنا ہی بیکار ہے۔

میں دوسروں کو ہوشیار کرنے کے خلاف نہیں ہوں ہو مگر میرا ماننا ہے کہ اگر درمیانی راستہ اختیار کر کے منفی اور مثبت دونوں پہلو بتائے جائیں تو اس سے انسان صرف برے نہیں بلکہ  ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر نئے سفر کی تیاری کرے گا۔

کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے؟

 سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف سماجی اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ سٹوریز لکھتی ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button