کیلاش قبیلے کے 95 سالہ چیف قاضی ادینہ چل بسے
گل حماد فاروقی
کیلاش: وادی رمبور میں کیلاش قبیلے کے 95 سالہ چیف قاضی ادینہ طویل علالت کے بعد چل بسے، ادینہ سب سے معمر قاضی، اور وادی رمبور کے سابق چیف قاضی رہ چکے تھے۔
اس موقع پر وادی بریر کے چیف قاضی میر باچا کیلاش نے جستہ کان (کیلاشیوں کی عبادت گاہ) میں آ کر آنجہانی چیف قاضی ادینہ کیلاش کی تعریف کی اور ان کے تمام کارنامے اور اچھے کاموں کو سراہا، یہ بیان نصف گھنٹہ جاری رہا جس کے بعد باری باری کیلاش قبیلے کے لوگ؛ مرد و خواتین دونوں، ٹولیوں کی شکل میں جستہ کان آتے رہے اور میت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے رہے۔
اس مخصوص رسم کو دیکھنے کیلئے بعض غیرملکی سیاح بھی وادی بریر آئے تھے۔
خیال رہے کہ کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء مقامی زبان میں قاضی کہلاتے ہیں جن کا ایک چیف قاضی بھی ہوتا ہے جس طرح مسلمانوں کا مفتی اعظم ہوتا ہے۔
کیلاشی مذہب کے مطابق مرد کی موت پر تین دن جبکہ خاتون کی موت پر ایک سے دو دن میت کی رسم منائی جاتی ہے تاہم وادی بریر میں کیلاش مذہب اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے۔
کیلاش قبیلے میں ان کے مذہبی رہنماء جو قاضی کہلاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے بالکل برعکس ہیں، مسلمانوں میں کوئی خاتون امام نہیں بن سکتی نہ امامت کر سکتی ہے مگر کیلاش مذہب میں خاتون بھی ان کی قاضی بن سکتی ہے۔
ایسی ہی ایک خاتون قاضی سچن گل نے ٹی این این کے ساتھ میت کی رسم کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
سچن گل کیلاش نے بتایا کہ ان کے رشتہ داروں میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو وہ وادی بمبوریت، وادی بریر اور ادی رمبور یعنی تینوں وادیوں میں اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کو اطلاع دیتے ہیں جس طرح مسلمان اپنے رشتہ داروں کو کسی میت کی اطلاع دیتے ہیں۔
”ہم اپنے رشتہ دار کی موت پر صدقہ دیتے ہیں اور اس پر بیس، تیس، پچاس اور سو تک بکرے ذبح کرتے ہیں مگر ان بکروں کو مسلمانوں سے ذبح کرواتے ہیں کیونکہ ہمارے آس پاس ان وادیوں میں مسلمان بھی رہتے ہیں جو ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ نہیں کھاتے کیونکہ ہم مسلمان نہیں ہیں مگر جب کوئی مسلمان ان جانوروں کو ذبح کرتا ہے تو سب لوگ کھا سکتے ہیں ان میں بعض اوقات بیل اور بچھڑے بھی ہوتے ہیں، ان کو پکانے کے بعد ہم سب رشتہ داروں کو دعوت دیتے ہیں، اس کے بعد ہم خدا کو ایک مان کر اپنے دستور کے مطابق مُردے کیلئے اپنی مذہبی رسم مناتے ہیں، جس طرح مسلمان کسی میت کا جنازہ پڑھتے ہیں اور اس کیلئے دعا کرتے ہیں۔” سچن گل نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام مذاہب کی قدر کرتے ہیں اور سب کا احترام کرتے ہوئے اپنے مذہب سے پیار کرتے ہیں، ہم نہایت اچھے طریقے سے مرنے والے کو خوشی خوشی رخصت کرتے ہیں، ان کے ساتھ میت والی رسم مناتے ہیں اور خوشی کے دن یا خوشی کے موقع پر ہم خوشی مناتے ہیں۔
واضح رہے کہ کیلاشی مردے کو چارپائی پر رکھا جاتا ہے اور اس کے سرہانے سفید یا سرخ رنگ کا جھنڈا بھی کھڑا کیا جاتا ہے جسے عزت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ میت کی ٹوپی میں پچاس، سو، پانچ سو، ہزار اور پانچ ہزار کے نوٹوں کو سجایا جاتا ہے، اس کے سرہانے تازہ اور خشک پھل کے ساتھ ساتھ سگریٹ اور نسوار کو بھی رکھا جاتا ہے۔
ہر وادی اور ہر علاقے کے قاضی حضرات آ کر میت کے پیروں کی طرف کھڑے ہو کر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی کارنامہ کیا ہو تو اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اس دوران مرد حضرات ڈھول بجاتے ہیں اور خواتین ٹولیوں کی شکل میں، یا پھر اکیلی بھی، روایتی رقص پیش کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ مذہبی گیت بھی گاتی ہیں۔
تین دن تک مسلسل مہمانوں کی ضیافت کی جاتی ہے؛ ان کو دیسی گھی، پنیر، روٹی اور گوشت کھلایا جاتا ہے۔ تین دن کے بعد جب لاش کو جستہ کان سے اٹھایا جاتا ہے تو مرد کی صورت میں ہوائی فائرنگ بھی کی جاتی ہے جبکہ خاتون کو دفناتے وقت ہوائی فائرنگ نہیں کی جاتی۔
لاش کو ایک چارپائی پر ڈال کر ایک قاضی جھنڈے کو اٹھا کر آگے آگے جاتا ہے، میت کو قبرستان میں دفناتے ہیں۔ آج سے سو سال پہلے تک ان کو لکڑی کے صندوق میں کھلا چھوڑا جاتا تھا مگر بعد میں تعفن کی وجہ سے ان کو دفنانا شروع کیا۔
کیلاش مرد کے ساتھ اس کے استعمال کا سامان اور ایک بارہ بور بندوق بھی رکھی جاتی ہے مگر آج کل بندوق نہیں رکھی جاتی ہے۔ جس چارپائی پر میت کو قبرستان لے جایا جاتا ہے اسی چارپائی کو اس کی قبر پر الٹی کر کے ڈال دیتے ہیں اور وہیں چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔
قبرستان سے واپسی پر تمام لوگ ایک ندی میں اپنے ہاتھ دھو کر پھر میت کے گھر جاتے ہیں جہاں ان کی ضیافت کی جاتی ہے جس میں انگور سے بنی ہوئی شراب بھی خصوصی طور پر مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔
چترال کے معروف سیاسی اور سماجی کارکن عبدالطیف نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ رسم ہزاروں سالوں سے اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور کیلاش قبیلے کی مخصوص ثقافت اور رسم و رواج کی وجہ سے یہ لوگ پوری دنیا میں مشہور ہیں جس کی وجہ سے چترال بھی پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیلاش قبیلے کے کسی فرد کی موت پر کیلاشیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی آ کر ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر کوئی دعا وغیرہ نہیں پڑھی جاتی ہے۔
اختتامی تقریبات کے بعد جب مہمان کھانا کھا کر واپس جاتے ہیں تو ان کو گوشت کے شوربے اور آٹے سے مل کر ایک خاص قسم کا سوپ پیش کیا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں جوش کہا جاتا ہے۔ آخری دن خواتین کو جاتے وقت گوشت اور جوش بھی دیا جاتا ہے جو وہ گھر جا کر اپنے بچوں اور اہل حانہ کو کھلاتی ہیں۔ اس دوران لوگوں میں سگریٹ اور نسوار بھی تقسیم کرتے ہیں۔ کسی کیلاش کی موت پر جتنے زیادہ بکرے ذبح کئے جائیں اتنی ہی معاشرے میں میت کی عزت بڑھ جاتی ہے۔
واضح رہے کہ وادی رمبور میں جب کسی کیلاش کی میت پر مسلمان آتا ہے تو سب سے پہلے ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یا تو ان کو اس کے ذریعے پاک کروانا ہے یا پھر میت کو سلامی پیش کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی مسلمان جستہ کان جا سکتا ہے۔