خیبر پختونخوا: کرسچئن ڈاکٹرز کل مشہور آج ناپید کیوں؟
خالدہ نیاز
‘میں چار سالوں سے نوکری کے لیے ٹیسٹ دے رہی ہوں لیکن ابھی تک مجھے نوکری نہیں مل سکی، پبلک سروس کمیشن میں جو نوکریاں آتی ہیں ان کے لیے بھی کئی بار ٹرائی کر چکی ہوں لیکن تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔’
پشاور کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ عذیقہ نے 2015 میں یونیورسٹی آف پشاور سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن اپنی چھیاسٹھ سالہ والدہ جوسفین گِل کی دیکھ بھال کی وجہ سے نوکری نہیں کر سکتی تھیں۔ 1992 میں ایک سرکاری سکول سے استانی کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والی جوسفین گِل ستمبر 2013 میں پشاور میں آل سینٹس چرچ پر خودکش حملے میں زخمی ہوئی تھیں۔ اس واقعہ کے چار سال بعد جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تب سے عذیقہ نے نوکری کیلئے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔
ان لوگوں کی نوکری جلد ہو جاتی ہے جن کی کوئی سفارش ہوتی ہے
عذیقہ نے بتایا کہ آج کل مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور ایسے میں ان کے لیے نوکری کا حصول بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ ان کے والد کا بھی انتقال ہو چکا ہے اور والدہ کی قلیل پنشن میں گزارا ممکن نہیں رہا۔ کوٹہ سسٹم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عذیقہ نے کہا کہ اس پہ ان لوگوں کی نوکری جلد ہو جاتی ہے جن کی کوئی سفارش ہوتی ہے اور جن کی سفارش نہیں ہوتی وہ یونہی بے روزگار بیٹھے رہتے ہیں۔
ان کے بقول سب سے بڑا مسئلہ سفارش کا ہے،اقلیتوں کے کوٹہ پر بھی بعض لوگ سفارش کروا کے اپنا کام نکلوا لیتے ہیں جس کی وجہ سے حق دار لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔
عذیقہ نے کہا کہ سرکاری نوکریوں میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کا پراسیس بڑا لمبا ہوتا ہے اور سالوں لگ جاتے ہیں، اگر کوئی مارچ میں اپلائی کرتا ہے تو اکتوبر، نومبر میں کہیں جا کر صرف ٹیسٹ لیا جاتا ہے پھر نتیجے کا انتظار ہوتا ہے اور آخر میں انٹرویو کی تاریخ دی جاتی ہے، ”حال ہی میں، میں نے ایک جاب کے لیے اپلائی کیا ہے اور روزانہ پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ دیکھتی ہوں لیکن ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا، اتنے طویل عرصہ میں تو انسان یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس نوکری کے لیے اپلائی کیا تھا”، انہوں نے مزید کہا۔
پانچ فیصد کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا
پاکستان میں اقلییتی برادری کے لیے سرکاری نوکریوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص ہے تاہم اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے آگسٹن جیکب کا کہنا ہے کہ اگرچہ خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کی نوکریوں کے لیے کوٹہ موجود ہے تاہم کئی ایسے شعبے ہیں جہاں پر یہ کوٹہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں طلباء کے لیے کوٹہ کم ہے جس کی وجہ سے بہت سارے طالبعلم خواہش کے باوجود ان شعبوں میں جانے سے رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آگے جا کر ان شعبوں میں اقلیتوں کے لیے مختص نوکریوں کے کوٹہ سے بھی استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔
آگسٹن جیکب نے کہا کہ بعض محکموں میں پانچ فی صد کوٹے پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا اور انتظامیہ نہیں چاہتی کہ اقلیتی برادری کے لوگ ان محکموں میں نوکریاں حاصل کر سکیں، لوگوں کا ایک مائنڈ سیٹ بنا ہوا ہے کہ سینٹری ورکرز کی مخصوص نوکریاں ہی اقلیتی برادری کے لیے ہیں اور باقی محکموں میں ان کو نہیں لایا جانا چاہئے۔
اقلیتی برادری کے نوجوانوں میں مایوسی پھیل چکی ہے
ان کے مطابق مہنگائی کے دور میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بچوں کو بہت مشکلوں سے پڑھاتے ہیں، لوگوں سے قرض پیسے لیتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں اور کسی اچھے مقام پر پہنچ جائیں لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو پھر ان کو نوکری نہیں مل پاتی اور یوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سسٹم سے مایوس ہو کے ادھر اُدھر پرائیویٹ سکولز میں چھ سات ہزار کی نوکری پہ کام شروع کر دیتے ہیں جو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔
آگسٹن جیکب نے کہا کہ ہمارے ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریاں دے کیونکہ مستقبل کے معمار ہیں اور انہوں نے ہی آگے جا کے ملک کی باگ ڈور سنھبالنی ہے۔
آگسٹن جیکب نے کہا کہ اقلیتی برادری کے نوکریوں کے مسئلے کو انہوں نے ہر فورم پر اٹھایا ہے اور آگے بھی اٹھائیں گے، اس سلسلے میں کئی بار پریس کانفرنسز کی ہیں، حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن حکومتی نمائندے یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے پانچ فیصد کوٹے کا نوٹیفیکشن جاری کر رکھا ہے، کوئی اپلائی نہیں کرتا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔”
خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کی آبادی دو لاکھ ہے
سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ بتائی گئی ہے، ملک کی 96.4 فیصد آبادی مسلم جبکہ باقی اقلیتی برادری پر مشتمل ہے، مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کی آبادی دو لاکھ ہے۔
مسیحی برادری کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی سومیا (فرضی نام) نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے نوجوان اب تعلیم یافتہ ہو چکے ہیں لیکن جب نوکریوں کی بات آتی ہے تو پھر بہت کم نوجوان ہوں گے جن کو نوکریاں ملی ہیں، پانچ فیصد کوٹہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس کوٹے کو ہی نوجوانوں کو نوکریاں نہ ملنے کی رکاوٹ قرار دیا مثال کے طور پر اگر محکمہ تعلیم میں 20 سیٹیں آتی ہیں تو کوٹے کے حساب سے اقلیتی برادری کی ایک سیٹ بنتی ہے، اس طرح 100 میں سے صرف پانچ سیٹیں مختص ہوں گی جوکہ بہت کم ہیں۔
اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سومیا نے کہا کہ انہوں نے 2010 میں اقلیتی کوٹہ پر نائب تحصیلدار کی سیٹ کے لیے امتحان دیا لیکن چونکہ میرے پاس رشوت اور سفارش نہیں تھی تو اس وجہ سے مجھے وہ سیٹ نہ مل سکی۔
چار پانچ لاکھ دو او نوکری لے لو
سومیا کا کہنا ہے کہ اگر یہاں کسی کو نوکری کرنی ہے تو سب سے پہلے اس کو سفارش ڈھونڈنی چاہیے یا اگر سفارش نہیں ہے تو اس کو رشوت کا بندوبست کرنا پڑے گا لیکن اگر یہ دونوں نہیں تو پھر مشکل ہے کہ اس کو کوئی نوکری مل پائے گی، ”میں ایک ضم شدہ قبائلی ضلع سے تعلق رکھتی ہوں، یہاں کچھ عرصہ پہلے محکمہ تعلیم میں ایس ایس ٹی، پی ٹی وغیرہ کی سیٹس آئی تھیں تو ہمیں کہا گیا کہ اگر آپ چار سے پانچ لاکھ روپے رشوت دے سکتے ہیں تو اقلیتی کوٹہ کی سیٹ پر نوکری مل جائے گی بھلے آپ ٹیسٹ بھی فیل کر دیں”، انہوں نے کہا۔
سومیا نے کہا کہ وہ اب اپلائی کر کر کے تھک گئی ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ جو بھی سیٹس آتی ہیں ان پہ پہلے سے لوگ بھرتی ہو چکے ہوتے ہیں صرف خانہ پُری کے لیے اخباروں میں اور باقی جگہوں پہ اشتہار دیے جاتے ہیں اور انٹرویوز وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
پشاور کی مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے والے فعال سماجی کارکن اکتیس سالہ یاسر بھٹی کا کہنا ہے کہ کوٹے کا سسٹم پوری دنیا میں موجود ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو مرکزی حکومت نے اقلیتی برادری کے لیے نوکریوں کی مد میں پانچ فیصد کوٹے کا اعلان کیا تھا، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات مل گئے اور صوبے خودمختار ہو گئے تب خیبر پختونخوا حکومت نے اعشاریہ پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا لیکن اس کے بعد ہم نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کافی کوششیں کیں اور بالآخر پانچ فیصد کوٹے کو یقینی بنایا۔
اقلیتی برادری نظروں سے اوجھل
یاسر بھٹی نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے لوگ مڈل کلاس اور پِسا ہوا نظروں سے اوجھل طبقہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اقلیتی برادری کے لوگ پروفیشنل ڈگریوں کی طرف بہت کم جاتے ہیں اور جو جاتے بھی ہیں تو داخلہ حاصل کرنا کا معیار اتنا سخت ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان ان شعبوں میں داخلہ حاصل ہی نہیں کر پاتے، ”پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ پر اگر دیکھا جائے تو اقلیتی برادری کے لیے زراعت اور میڈیکل کے شعبے میں سیٹیں آ رہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے یہ ڈگریاں ہی نہیں کیں تو اس کوٹہ سے فائدہ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔”
اپنے ہی بھائی کی مثال دیتے ہوئے یاسر بھٹی نے کہا کہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہے، اس نے ایڈورڈز کالج سکول پشاور سے میٹرک کیا اور 2017 میں یونیورسٹی آف پشاور سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے لیکن پھر بھی اس کو نوکری نہ مل سکی، اس کے علاوہ کئی ایک ایسے نوجوان ہیں جو ایم اے تک پڑھ چکے ہیں لیکن بے روزگار پھر رہے ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اقلیتوں کے لئے مخصوص ججز اور انجنیئرز کی پوسٹیں بھی خالی آ رہی ہیں
دوسری جانب اقلیتی برادری کے لیے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے نوجوانوں کو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جتنی نوکریاں ملی ہیں اتنی اس سے پہلے نہیں ملیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر پوسٹوں پہ ان کو امیدوار تک نہیں ملتے، ابھی 94 پوسٹوں پر لیکچرارز کی بھرتی جاری ہے، کچھ ہو بھی گئی ہے جبکہ اے ایس آئی کی 27 پوسٹیں تھیں جن میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی نوجوان نے بھی سکریننگ ٹیسٹ پاس نہیں کیا اور اسی طرح اقلیتوں کے لئے مخصوص ججز اور انجنیئرز کی پوسٹیں بھی خالی آ رہی ہیں۔
سفارش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں اس کی نوبت نہیں آئی کیوں کہ ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوالوایشن ایجنسی (ایٹا) کے ذریعے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں، نوجوانوں کو میرٹ پہ بھرتی کیا جا رہا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اقلیتی برادری کے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو نوکریاں دیں تاکہ ان کو روزگار بھی مل سکے اور سیٹیں بھی خالی نہ رہیں۔
میڈیکل کالجوں میں اقلیتی برادری کی سیٹیں دو سے چھ کر دی گئیں
وزیر زادہ نے بتایا کہ ان کی حکومت نے میڈیکل کالجوں میں اقلیتی برادری کی سیٹیں دو سے چھ کر دی گئی ہیں البتہ انجینئرنگ میں ان کی سیٹیں نہیں ہیں لیکن جلد وہاں بھی سیٹیں مل جائیں گی۔
وزیر زادہ کے مطابق اقلیتی برادری کے نوجوانوں کے لیے انہوں نے سکالرشپ کا انعقاد بھی کیا ہے، پی ایچ ڈی پہ ان کو دس لاکھ جبکہ ایم فل کے لیے دو لاکھ روپے دیئے جائیں گے جبکہ ماسٹر کے لیے ایک لاکھ روپے کی سکالرشپ رکھی ہے اور مستقبل میں اقلیتی نوجوان اعلیٰ عہدوں پر نظر آئیں گے۔
مائنارٹی رائٹس پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتی برادری میں کرسچئن کمیونٹی کے ڈاکٹر مشہور ہوا کرتے تھے لیکن مذہبی منافرت اور میڈیکل کی تعلیم مہنگی ہونے کے سبب کرسچئن کمیونٹی کے والدین اپنے بچوں کو میڈیکل میں داخلہ نہ دلوا سکے اور اس کے بعد سے کرسچئن ڈاکٹرز خیبر پختونخوا میں بالکل ناپید ہو چکے ہیں۔