سوات: غیرقانونی تعمیرات نے سیلاب کا رخ بازار کی طرف موڑ دیا
عصمت شاہ گروکی
ملاکنڈ ڈویژن سمیت ملک میں 1961 سے اب تک رواں سال اگست کے دوران سیلاب کا 30 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 243 فیصد سے زائد اوسط بارشیں ہوئیں، 27 اگست کو مٹلتان اور کالام کی وادیوں سے شروع ہونے والے تباہ کن سیلاب نے تقریباً 30 ہوٹل تباہ اور 50 کو نقصان پہنچایا۔
دریائے سوات کے کنارے غیرقانونی تعمیرات اور ہوٹلوں نے نہ صرف پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالی بلکہ بحرین کے نوآبادیاتی دور کے مرکزی بازار کی طرف سیلاب کا رخ موڑ دیا جس نے امیگریشن سمیت سرکاری اور نجی املاک کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
کمشنر ملاکنڈ کے دفتر سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کالام، بحرین، مدین، لنڈاکی اور فضاگٹ میں تقریباً 30 ہوٹل جو زیادہ تر دریائے سوات کے کنارے پر بنائے گئے تھے، وہ تباہ ہو گئے اور 50 کو غیرمعمولی رفتار سے آنے والے سیلاب سے نقصان پہنچا۔
اس کے علاوہ کالام، بحرین، کبل، چارباغ، منگلور، خوازہ خیلہ، مٹہ، مدین مینگورہ بائی پاس روڈ پر 700 ہوٹلز، سرائے اور ریسٹورنٹس مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئے جس سے سوات میں کورونا کے بعد ہوٹل انڈسٹری کو بھاری نقصان پہنچا۔
صدر آل سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن زاہد خان نے دعویٰ کیا کہ حالیہ سیلاب نے سوات میں تقریباً 50 ہوٹلوں اور 150 ریسٹورنٹس کو یا تو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا جس سے تقریباً 25 ارب روپے کا نقصان ہوا، تقریباً 70 ارب روپے کا معاشی نقصان صرف سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں سیاحت سے وابستہ کاروباری حضرات کو ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سوات میں تقریباً 50,000 افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاحت کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی تباہی نے انہیں بے روزگار کر دیا ہے۔
زاہد خان نے حکومت سے خصوصی امدادی پیکج کا مطالبہ کیا تاکہ مالم جبہ اور کالام میں اسکینگ کے کھیلوں کے مقابلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت سردی کے موسم سے قبل ہوٹلز کے مالکان کو تعمیر نو کے قابل بنایا جا سکے۔
دریائے سوات کے کناروں اور دیگر آبی گزرگاہوں کے اردگرد بڑے پیمانے پر تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات نے حالیہ ریکارڈ توڑ سیلاب میں لوگوں کی املاک کے علاوہ ہوٹلوں کی صنعت، زراعت، ٹراؤٹ فش اور باغات کے کسانوں اور مویشیوں کے مالکان کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔
سابق وزیر برائے ماحولیات واجد علی خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان تمام غیرقانونی تعمیرات کو بلڈوز نہ کیا گیا تو سوات کے عوام، تاجر، کسان اور ہوٹل والے سیلاب کے خطرات سے دوچار رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سوات کے کنارے بالخصوص کالام، بحرین اور مدین میں ہوٹلوں اور عمارتوں کی غیرقانونی تعمیرات نے ان سیاحتی علاقوں کی قدرتی خوبصورتی کو متاثر کرنے کے علاوہ ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے۔
واجد علی خان کے مطابق سوات کے لوگ زیادہ تر سیاحت کے کاروبار پر انحصار کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہوٹلوں کی تباہی نے بہت سے مزدوروں کو روزگار سے محروم کر دیا ہے۔
کے پی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد خان نے بتایا کہ اگست 2021 سے اگست 2022 کے دوران سیاحت کے شعبے سے تقریباً 51 ارب روپے کی آمدن ہوئی، غیرملکیوں سمیت 6,337,244 سیاحوں نے سوات سمیت صوبے کے خوبصورت مقامات کا دورہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب نے سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے، ٹراؤٹ فارمز اور ہوٹلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جو زیادہ تر کالام، بحرین اور مدین میں ہیں جن کی تعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔
سعد نے کہا کہ سوات میں ہوٹل انڈسٹری کو ہونے والے مالی نقصانات کا درست اندازہ لگانے کے لیے ایک جامع سروے جاری ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے آبی وسائل نے خاص طور پر سوات میں دریاؤں کے کنارے ہوٹلوں اور عمارتوں کی غیرقانونی تعمیرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مختلف محکموں سے موسمیاتی صورتحال کے تناظر میں ملک کے لیے نئی آبی اور ماحولیاتی پالیسی کی تشکیل کے لیے سفارشات/تجاویز طلب کی ہیں۔
رکن قومی اسمبلی اور کمیٹی کے چیئرمین ریاض الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت پانی اور ماحولیاتی مسائل پر قانون سازی کرنے پر غور کر رہی ہے جس میں آبی آلودگی اور دریاؤں میں تجاوزات کے انسداد کے علاوہ حالیہ سیلاب کے بعد موجودہ ماحولیاتی اور آبی قوانین میں ضروری ترامیم لانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت حالیہ قدرتی آفات کے بعد دریائے سوات کے کنارے ہر قسم کے تعمیراتی کاموں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر ہوٹل ریورز پروٹیکشن ایکٹ 2014 سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے، ریورز ایکٹ 2014 کے مطابق دریاؤں کے 200 فٹ کے فاصلے پر ہوٹلوں اور دیگر ہاؤسنگ پراجیکٹس کی تعمیر سختی سے ممنوع ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ سوات میں کسی بھی شخص کو دریاؤں اور ندی نالوں کے 200 فٹ کے اندر کمرشل یا غیرتجارتی عمارتیں بنانے یا کوئی اور ترقیاتی کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ڈی سی نے متنبہ کیا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، خلاف ورزیوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں گی۔