شادی۔۔۔ بڑی عمر کی لڑکی سے
ارم رحمان
ہر لڑکے کی ماں اپنے بیٹے کے لیے چاند جیسی بہو لانا چاہتی ہے لیکن اگر وہ چاند کو غور سے دیکھ لے تو یقینا” چاند جیسی لڑکی کے چہرے پر داغ دھبے ہونے چاہیے اس کا وجود تھوڑا سا ٹیڑھا ہو اور اس کا چہرہ پیلاہٹ مائل ہو
اب بتائیے چاہیے ایسی بہو ؟ عجیب المیہ ہے کہ اپنے بیٹے پر نظر پڑتی ہے نہ بیٹی پر بیٹے کے عیب اور نقائص نظر آتے ہیں نہ اپنی بیٹی کے ہم سب یکسر فراموش کر چکے ہیں کہ "اللہ کے سوا نہ کوئی پاک ہے نہ بے عیب ” اور یہ حدیث قدسی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان پھر ہم جنہیں انسانی عیوب اور نقائص سمجھتے ہیں وہ دراصل صرف جسمانی تشکیل اور اللہ کی اپنی مرضی و منشا کے مطابق ہے کسی کا قد لمبا ،کسی کا چھوٹا رنگ کالا یا گورا بہت پتلی ہڈیاں یعنی پتلے دبلے جسم کے مالک اور کچھ لوگ فربہ یا چوڑے چکلے جثے کے مالک ، ناک ستواں ،یا چپٹا ، آنکھیں غزال یاچنی ،
ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں نازک پتلے یا پھر گداز موٹے۔۔ کیونکہ مندرجہ بالا تو اللہ کی رضا تھی اور یوں کہیے کہ اللہ کو ایسا جسم بنانا مقصود تھا اب اسے جینیاتی ملاپ کا نام دیں یا مختلف بائیو کیمیکلز کی شرح ۔۔ سب سے جامع بات ایک ہے اللہ کا حکم ۔۔ ان خدوخال میں تبدیلی شاید ہی ممکن ہو سکے۔
وزن تھوڑا کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے یا ورزش اور کسرت سے کچھ متناسب یا پھر خوراک اور علاج سے چہرے کے دانے دھبے ختم کیے جاسکتے ہیں اس طرح بالوں کو اور رنگت کو بھی شاید کسی حد تک بہتر بنایا جاسکے
لیکن 99 فیصد ناممکن ہے کیونکہ یہ خالصتا”اللہ کی دین ہے اور مرنے کے بعد ان کا کوئی مواخذہ اور پکڑ نہیں ہوگی
اب آتے ہیں اصل خامیوں کی طرف جن کا جواب مرنے کے بعد لازمی اور بسا اوقات جیتے جی بھی دینا ناگزیر ہوجاتا ہے
جھوٹ ،دھوکہ، غرور طمع لالچ ،حسد ،چغلی ،غیبت ،بہتان تراشی ،رشوت ،سود خوری ،حرام کاری اور حرام کمائی ،اور سب سے بڑھ کر دل آزاری کرنا ان خامیوں کو دولت کی چکا چوند اور شہرت کی ہوس، عقل اور آنکھوں پر کسی پٹی کی طرح بندھ جاتی ہے اور انسان کی دیگر اصل خوبیاں فراموش کر ڈالتی ہے۔
میرا آج کا موضوع ایک عجیب پوسٹ پڑھنے سے تخلیق ہوا یعنی میری موجودہ تحریر کا محرک بنا گزشتہ روز ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ مشہور ٹک ٹاکر محترم زید علی صاحب کی زوجہ محترمہ ان سے عمر میں چند سال بڑی ہیں
ماشاءاللہ دیکھنے میں جوڑی بہت خوبصورت اور متناسب ہے اور سب سے بڑھ کر صاحب اولاد ہے لیکن اس پوسٹ میں سب سے اہم بات زید علی کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ اگر بیٹے کی شادی سے پہلے ان کے علم میں ہوتاکہ بہو ان کے بیٹے سے عمر میں بڑی ہے تو وہ یہ شادی ہرگز نہ ہونے دیتیں، اب یہ پوسٹ ان ٹک ٹاکرز کی سوشل میڈیا پر سنسنی خیزی کے لیے تھی یا محض کوئی اتفاق کہ یہ بات leak out ہوگئی اور پھر وائرل۔
پاکستان کی عام عوام بالکل فارغ ہے ہر لحاظ سے ،عقل کا استعمال اور اخلاق سے دور اور خواہ مخواہ کی باتوں پر گپیں لگانا ان کا محبوب مشغلہ اوراہم قومی فریضہ ہے لہذا وہ دھڑا دھڑ کمنٹ کرنا شروع کر دیتی ہے اکثریت مرد چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کے حق میں مبتلا تھے کیونکہ مردوں کی عقل عورت کی عمر اور جسم کے علاوہ دیکھ نہیں سکتی ،کیونکہ ان کے عقل و شعور اور سطحی سفلی اور ہوس زدہ جذبات کے درمیان جہالت کی موٹی دیوار حائل ہوتی ہے جب سوال اٹھتا ہے کہ "کسی والدین کے بیٹے کی شریک سفر بنانے کے لیے
ایک بہترین لڑکی درکار ہے ” اس جملے کا تعلق عمر شکل اور جسم سے ہی کیوں جوڑ دیا جاتا ہے؟
اگرچہ اسلام میں بہت وسیع پیمانے پر شادی کے لیے لڑکی کے محاسن گنوائے گئے ہیں
مال ودولت والی ،حسن اور خوبصورتی کی حامل ،اونچے حسب نسب والی اور دیندار۔۔۔۔
یہاں پر بات ختم کر دی جاتی ہے لیکن بات ابھی باقی ہے دوست جو اس کے آگے لکھا ہوتا ہے وہ بھی پڑھنا لازم و ملزوم ہے، یعنی ان چار گروپس میں سے مرد کسی بھی گروپ کی لڑکی کا انتخاب کر سکتا ہے جائز اور حلال ہے مگر دیندار زوجہ کو چننے والا اللہ کی بارگاہ میں عقلمند اور متقی پرہیز گار گردانا جاتاہے اور اس کے اس طرح کا ہمسفر منتخب کرنا آنے والی اچھی نسل کا پیدا کرنا ہے جو معاشرے کے لیے کارامد اور مفید ہو ،صاط مستقیم پر چل سکے کیونکہ بچے کے لیے ماں کی گود ہی پہلی درسگاہ ہے اور اچھی مائیں ہی اچھی اقوام کی تشکیل کا سبب بنتی ہیں
چلیے یہ ثقیل بات ہے انسانی فطرت میں حسن اور مال زیادہ اہم ہوتاہے ٹھیک ہے آپ کی سب باتیں مان لیتے ہیں
لیکن دو تین سال یا پانچ سال بڑی لڑکی سے شادی میں کیا ہرج ہے ؟
کتنی لڑکیاں اچھی خاصی قبول صورت اور بہترین تعلم یافتہ ہیں ان کو یہ کہہ کر رشتے سے انکار کر دینا کہ ہمارے پیارے ہیرو بیٹے سے عمر میں بڑی ہے لڑکے جو تعلیم کے حصول اور بر سر روزگار ہوتے ہوتے 26,27 سال کا ہو ہی جاتا ہے
اس کے لیے 30 سال کی لڑکی سے شادی کرنے میں قباحت کیا ہے ؟
میڈیکلی بھی یہ فرق کوئی معنی نہیں رکھتا اور اولاد ہونے میں بھی کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہوتا
پھر” پکی عمر کی ہے” یہ کہنا کونسی اخلاقی اقدار میں شامل ہے ،بچی اور گھر والوں کا دل توڑنا اور رسوا کرنا کس کردار کی غمازی کرتا ہے۔
لڑکی ایک انسان ہے جیتی جاگتی احساسات اور جذبات رکھنے والی اور اللہ کے نزدیک تو عورت اور مرد کی تخصیص ہی نہیں دونوں انسان ہیں اور اپنے تقوی اور پرہیز گاری سے ہی روز محشر حساب کتاب دیں گے
چلیے ہم شکل و صورت کے حوالے سے بھی لڑکے اور اس کے والدین کی پسند پر چھوڑ دیتے ہیں تب بھی اچھی پیاری لڑکی اگر کچھ سال بڑی ہے تو بھی انکار کر دیتے ہیں کہ ” جی لڑکی اچھی ہے پیاری ہے مگر بیٹے سے عمر میں بڑی ہے
دو بچے ہوگئے تو شوہر کے ساتھ چلتے ہوئے بیوی نہیں اس کی ماں لگے گی” تف ہے ایسی گھٹیا سوچ پر !
کیا صرف یہ ہی شادی کا پیمانہ ہے کہ لڑکی دو بچے پیدا کرے یا چھ ۔۔لگے ہمیشہ شوہر سے چھوٹی ،چاہے شوہر بیوی کا باپ لگے یہ منظور ہے حد ہوگئ ، خدا کی قسم اتنی فضول گفتگو کرتے ہوئے نہ خوف خدا ہے اور نہ اپنی جہالت کا احساس کیا سوچ ہے یہ ؟ شرمناک ,درد ناک میاں بیوی کا رشتہ اعتبار محبت اور خلوص کا ہونا چاہیے
ہم آہنگی احساس اور ہمدردی کا ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مضبوط اور سمجھدار رفیق چاہیے
جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کی دلجوئی کرے ،ہاتھ بٹا سکے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں خلوص دل سے ساتھ دے سکے، ان خوبیوں کو چھوڑ کر عمر اور جسم کے چکر میں رہنا حیرت ہے بلکہ یقین کیجیے کسی مجھ جیسے ہر حیرتوں کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو اچنبھا نہیں اور فرض بلمحال کوئی کسی مجبوری یا خاندانی حوالے یا جائیداد کی تقسیم نہ ہو جائے یعنی غیروں کو نہ حصہ نہ دینا پڑے تو بڑی عمر کی کزن سے شادی کر لی جاتی ہے۔
اور پھر اس بات کو صرف لوگوں کے سامنے اپنا کھسیانہ پن چھپانے کے لیے معاذ اللہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیروی کا نام دے دیا جاتا ہے لیکن بحالت مجبوری
ورنہ اس حدیث مبارک کی حقیقت اصلیت اور ابدیت کو سمجھا جائے تو پھر یہ معاشرہ بہت خوشی اور رضا سے یہ سنت اپنائے گا اور لاکھوں لڑکیاں بڑی عمر کے باوجود اپنے گھروں کی ہوجائیں گی ان کے گھر بس جائیں گے اور بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے نجات کے علاوہ برائی کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا کیونکہ لڑکی کا چھوٹا یا بڑا ہونا صرف نکاح کے وقت دیکھا جاتا ہے زنا کرتے وقت نہیں۔
اللہ ہمیں غلط اور درست میں فرق سمجھنے کی توفیق اور ہدایت عطا کرے آمین