خشک موسم، افواہیں یا مقامی آبادی، خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آتشزدگی کی وجوہات کیا ہیں؟
سلمیٰ جہانگیر
"ہمارا گھر پہاڑوں کے قریب دامن میں واقع ہے، جب پہاڑ کے اوپر درختوں میں آگ لگی، مجھے میرے گھر کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ پہاڑ کے اوپر واقع گھروں میں رہائش پذیر لوگ درختوں میں لگنے والی آگ سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن گرم ہوا کا زور بہت زیادہ تھا۔ جھاڑیوں میں لگنے والی آگ جلد ہی درختوں تک پہنچ گئی۔ جنگلات میں کچھ درخت سالوں پرانے اور بہت خشک ہیں اسی لیے آگ پھیلنے میں وقت نہیں لگا اور تیزی سے پھیل گئی۔” زرمینہ بی بی نے بتایا جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے چکیسر سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آگ سے پیدا ہونے والے شعلے بہت خوفناک منظر پیش کر رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لئے ایسا لگا جیسے قیامت آ گئی ہو۔ ہر طرف خوف پھیل گیا تھا۔ لوگ اپنا گھر بار بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے جس میں کافی حد تک مقامی لوگ کامیاب بھی ہوئے۔
زرمینہ نے بتایا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات اپنائے کہ اگر آنے والے وقتوں میں ایسا کوئی حادثہ پیش آتا بھی ہے تو اس کا نقصان اتنا نا ہو، حالیہ آتشزدگیوں میں درختوں میں چلغوزے کے بہت سارے درخت خاکستر ہو گئے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصان ہے۔
زرمینہ نے مزید بتایا کہ آگ لگنے میں کسی کی مداخلت نہیں ہو سکتی کیونکہ جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات نئے نہیں ہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے جنگلات میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن وہاں ہونے والے نقصانات اتنے نہیں جتنے یہاں ہوتے ہیں، اس سال موسم انتہائی خشک اور گرم تھا جو کہ آگ لگنے کا سبب بنا، کوئی اپنے گھر کو خود آگ لگا سکتا ہے؟ نہیں ناں! تو پھر مقامی لوگوں نے کیسے خود جنگلات کو آگ لگائی ہو گی جس پر یہاں کے تمام لوگوں کا انحصار ہے۔
اس سال مئی کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے 20 اضلاع کے پہاڑوں میں آگ لگنے کے 313 واقعات پیش آئے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مرتبہ آگ ایبٹ آباد کے پہاڑوں میں لگی ہے جس کی تعداد 100 کے قریب بتائی گئی ہے۔ (بی بی سی اردو)
محکمہ جنگلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے 210 مقامات پر لگنے والی آگ سے تقریباً 14٫430 ایکڑ زمین پر پھیلے جنگلات کو نقصان پہنچا، افواہوں کی وجہ سے 55 جنگلات کو مقامی لوگوں نے آگ لگائی۔
صوبائی محکمہ جنگلات، ماحولیات اور محکمہ جنگلی حیات کی طرف سے مرتب کردہ ایک رپورٹ (23 مئی 2022 تا 13 جون 2022) کے مطابق جنگلات میں لگنے والی آگ کے واقعات میں سے 55 جنگلات کو مقامی افراد نے جان بوجھ کر آگ لگائی جبکہ 12 جنگلات خشک موسم کے باعث شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے۔ مزید 143 جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ تاحال معلوم نا ہو سکی۔
محکمہ جنگلات کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں 815 ایکڑ پر پھیلے جنگلات کو آگ لگنے کے مختلف واقعات میں نقصان پہنچا تھا۔
محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کے ترجمان لطیف الرحمان نے ٹی این این کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت جنگلات میں لگی آگ کی وجہ سے نقصان پانے والوں کو معاوضہ ادا کرے گی۔
ڈویژنل فارسٹ سٹاف ممبران کی جانب سے ملنے والی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غلط افواہوں کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوئے۔
لطیف الرحمان نے بتایا کہ محمکہ جنگلات نے ایسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی اور اس سلسلے میں کم از کم 12 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ افواہیں بے بنیاد تھیں اور حکومت نے آگ میں خراب ہونے والے درختوں کے حوالے سے کسی قسم معاوضے کا اعلان نہیں کیا تھا۔
ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ طارق افغان کے مطابق تعزیرات پاکستان کی دفعات 436/427 اور جنگلات کے قانون کے تحت ایسے مجرم کے لیے تین سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب سوات کے چار باغ سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین کا کہنا ہے کہ سوات کے مختلف علاقوں میں لگنے والی آگ جھاڑیوں میں لگی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگلات میں پھیلی اور رہائشی علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ سننے میں آیا ہے کہ آگ لگنے میں کچھ علاقوں کے مقامی لوگ بھی شامل ہیں جو کہ تشویش اور حیرت کی بات ہے کیونکہ جنگلوں کے قریب رہائشی علاقوں کے رہنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش جنگلات ہیں اور ایک شخص اپنی روزی کو کیسے لات مار سکتا ہے۔ شبیر حسین نے کہا کہ ان کے قریبی رشتہ دار بہت متاثر ہوئے ہیں جن کی روزی روٹی کا زیادہ تر انحصار ان جنگلات پر تھا۔
محمد عارف خٹک ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122 شانگلہ کے مطابق پہاڑوں پر موجود جنگلات میں اس سال جون میں لگنے والی آگ کو بجھانے میں ریسکیو 1122 نے اپنے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ انہوں ںے بتایا کہ 9 جون 2022 کو ضلع شانگلہ کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کے دوران ریسکیو 1122 کا ایک بہادر اہلکار نظام جان کی بازی ہار کر شہید ہو گیا تھا۔
محمد عارف نے بتایا کہ فارسٹ فائر جون جولائی اگست کے مہینوں میں لگتی ہے، اس کی وجوہات موسم کا خشک ہونا اور پھر نمی کی وجہ سے گرمائش کے عمل کا بڑھنا ہے، اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں کے درخت آگ پکڑنے میں دیر نہیں کرتے اسی لیے بہت جلد آگ پھیل جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں آگ بجھانے کا عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کے لیے اہلکاروں کو تیار رکھا جاتا ہے، اس کے علاوہ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں موسم انتہائی خشک رہتا ہے اور بارشیں نہ ہونے یا انتہائی کم ہونے کی وجہ سے پودے اور جنگلات خشک ہو جاتے ہیں، ان علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات زیادہ پیش آ رہے ہیں۔
لطیف الرحمن نے بتایا کہ محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے آگ لگنے کے باقی 143 واقعات کی وجوہات معلوم کرنے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ کیا واقعی انسانی مداخلت کی وجہ سے ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے یا خشک موسم کی وجہ سے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی شبانہ گل نے ٹی این این کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ان کے علاقے میں چلغوزے کے درخت کافی زیادہ ہیں لیکن کچھ مہینوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت کافی بڑھ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے درختوں کے لیے ہلکی سی چنگاری بھی کافی ہوتی ہے اور منٹوں میں ایسے خشک درخت آگ پکڑ لیتے ہیں۔۔
شبانہ نے بتایا کہ جب آگ لگی تو اس نے کافی رقبہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تقریباً 15 دن تک جاری رہی جس سے چلغوزے کے درختوں کو کافی نقصان ہوا، لوگوں کے گھر جل گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں نے بھی آگ بجھانے میں رضاکارانہ ٹیموں کا ساتھ دیا۔ شبانہ کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں لیکن اس سال لگنے والی آگ سے کافی درخت خاکستر ہو گئے ہیں اور جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہے۔