لائف سٹائل
خواجہ سراؤں کی میت وصولی سے ان کے گھر والے انکاری
لائبہ حسن
واقعہ کا پس منظر:
یہ واقعہ 17 ستمبر کی رات کو رنگ روڈ کبوتر چوک کے موڑ پر رات 11 سے 12 بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔
ڈولفن نے بتایا کہ ان کی دوست حسینہ نے انہیں بتایا کہ شادی ہال میں ان کی تقریب ہو گی، ”جب ہم پانچ خواجہ سراء وہاں پہنچے تو کسی ساتھی خوجہ سراء نے ہمارا وٹس ایپ میسج اور لوکیشن پھیلائی۔ اس کے بعد ہال کے باہر موٹر سائیکل پر سوار بہت سے آوارہ لوگ جمع ہو گئے جس کی وجہ سے ہال کے لوگ گھبرا گئے اور تقریب کو منسوخ کر دیا، ہم نے پھر پشاور کی طرف واپسی کی تو ایک سفید گاڑی ہمارے دائیں جانب سے آ رہی تھی کہ اچانک انہوں نے اندھادھند گولیاں ہم پر برسانا شروع کیں، ہمارے ڈرائیور فیضان نے گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ روک دی کہ اتنے میں خواجہ سرا حسینہ چلائی کہ مجھے گولی لگ گئی ہے، اس کے بعد دوسری گولی میرے ران پر جا لگی پھر میرا ہاتھ زخمی ہو گیا، مجھے تقریباً تین چار گولیاں لگیں۔ میں اور میرے ساتھی ہسپتال کیسے پہنچے یہ بات میں نہیں بتا سکتی تاکہ دشمنوں کو مزید موقع نا ملے ہم پر حملہ کرنے کیلئے۔”
ڈولفن نے مزید بتایا کہ اس انہونی کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھی خواجہ سراؤں نے ہماری لوکیشن لیک کر دی تھی اور واٹس ایپ کا ایک میسج بھی پھیلایا جس میں ہماری بات چیت ہوئی تھی کہ ہم کس ٹائم تک ہال پہنچیں گے اور واپسی کب تک کریں گے۔
خواجہ سرا نینا نے بتایا کہ ہم پر قاتلانہ حملے کوئی خوجہ سرا نہیں کرتا بلکہ ہم پر حملہ کرنے والوں میں سے زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہماری محفلوں میں بھی آتے ہیں یا ہمارے دوست ہوتے ہیں لیکن ہمارے ساتھی خواجہ سرا جب کسی دوست کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو اس بنا پر کچھ غنڈوں کو ہمارا پتہ مل جاتا ہے اور بعد میں پلان کے تحت ہمیں پھسایا جاتا ہے، ہم پر تشدد کیا جاتا ہے اور ہمیں بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے جس کو بعد میں یہی لوگ مذہب کا نام دیتے ہیں کہ محفلوں میں ہم لوگوں کو کافر بنا رہے ہیں جبکہ یہی مذہبی ٹھیکے دار ہماری محفلوں میں بیٹھتے ہیں۔
دوسری جانب معروف مذہبی سکالر مفتی عبدالرحمن نے خواجہ سراؤں کے قتل اور ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خدا جس نے مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا وہی خدا ہے جس نے خواجہ سراؤں کو پیدا کیا، خدا اپنے کاموں کو انجام دینے میں کبھی غلطی نہیں کرتا، یہ انسان ہی ہیں جو اس معاملے میں الجھے ہوئے ہیں، خدا نہیں؛ ”مختلف عقائد، فرقوں، مذاہب اور نظریات نے تنازعات اور جنگیں پیدا کی ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا ماننا ہے کہ ان کا عقیدہ ہی سچائی کی واحد شکل ہے، اگرچہ وہ سب دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا صرف ایک ہے، تب بھی وہ اختلاف رائے کی وجہ سے بحث کریں گے، پھر یہ غیرمنصفانہ ہے اگر ایک مذہب کے پیروکار دوسروں کو اس کے ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم یہ نتیجہ اخذ کر کے پیچیدہ مسائل کو آسان نہیں کر سکتے کہ بعض لوگوں نے گناہ کیا ہے یا انہیں خدا کی طرف سے مسترد کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کی زندگی کے اپنے الگ طریقے ہیں، یہی منطق ٹرانسجینڈرز پر بھی لاگو کی جا سکتی ہے۔”
مفتی عبدالرحمٰن کے مطابق لوگوں کے لیے طبی یا حیاتیاتی طور پر کسی چیز کو سمجھنا مذہب کی حقیقی تعلیمات پر محدود معلومات پر مبنی ایک تنگ نظریہ ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ٹرانس جینڈر شخص کو بھی نہ جانتے ہوں، ہو سکتا ہے کہ انہیں مذہب کا بھی مکمل علم نہ ہو لیکن وہ کسی ایسی چیز پر اصول بنانا چاہتے ہیں جس کا انہیں خود بھی علم نہیں، ”اسلام ہمیں ہرگز اجازت نہیں دیتا کے ہم کسی بھی جنس کے ساتھ بدسلوکی کریں، ان پر تشدد کریں اور انہیں قتل کریں۔
خیبر پختونخوا کے معلومات تک رسائی کے قانون 2013 سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبر پختونخوا میں 1500 خواجہ سراء آباد ہیں، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 913 خواجہ سراؤں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 70 کو قتل کیا گیا لیکن پولیس میں درج خوجہ سراؤں کی جانب سے ایف ائی آر کی اب تک کئی مکمل تعداد دستیاب نہیں۔
پشاور میں 2018 میں قتل کے 387 مقدمات درج کیے گئے، ان مقدمات میں پولیس نے 900 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف عدالتوں میں چارج شیٹ جمع کرائیں، اس دوران اغوا کا صرف ایک مقدمہ درج ہوا جو حل ہو گیا جبکہ مقدمے کی چارج شیٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔
2019 کے لیے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک قتل کے 51 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں 170 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ قتل کے واقعات میں ملوث زیادہ تر افراد کی عمریں 27 سال سے 34 سال تک کے درمیان ہیں، ان میں سے زیادہ تر مجرموں کا خواجہ سراؤں کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے، تعلقات میں دراڑ کے باعث پھر یہ لوگ یا ان پر تشدد کرتے ہیں یا انہیں قتل کرتے ہیں۔
ٹرانسجنڈر نینا کو جب ثناء اللہ نامی شخص نے پیسوں کے معاملے پر قتل کیا اور وہ فرار ہو گیا تو پولیس نے نینا کے گھر والوں کو اطلاع کی کہ آیا وہ کوئی کارروائی کروانا چاہتے ہیں اپنی طرف سے یا نہیں؟ اس پر نینا کے گھر والوں نے جواب میں کہا کہ ان کا نینا سے اور اس کے قاتل سے کوئی لینا دینا نہیں نا ہی وہ کاروائی کروانا چاہتے ہیں، ”ںینا کے گھر والوں نے نینا کی میت سے بھی انکار کیا اس لئے بعد میں ہم نے کی نینا کے کفن دفن کا انتظام کروایا۔”
پولیس نے مزید بتایا کہ زیادہ تر ملزمان کی تفتیش ابھی تک جاری ہے اور ہماری یہی کوشش ہے کہ ہر ایک کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دلوائیں۔
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال سے اب تک صوبے میں اغوا کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تاہم، کے پی پولیس نے پولیس ٹریننگ کورس میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ایک باب شامل کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔
صوبائی پولیس کے تب کے سربراہ ثناء اللہ نے پولیس اہلکاروں کو تھانوں میں آنے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ احترام اور برابری کا سلوک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواجہ سرا بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح تمام حقوق کے حقدار ہیں۔ مزید برآں، کے پی پولیس کے سابق چیف نے صوبے میں تیسری جنس کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تمام خواجہ سراؤں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور اس بات کی مکمل تحقیقات بھی کی جائیں گی کہ خواجہ سراؤں کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آئین پاکستان
پاکستانی قانون میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دفعات شامل ہیں۔ 2009 میں، پاکستان کی سپریم کورٹ نے، جنوبی ایشیاء کی دیگر عدالتوں کی طرح، تمام صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کو تسلیم کریں۔ اس فیصلے میں خاص طور پر خواجہ سراؤں سے متعلق معاملات پر پولیس کے بہتر جوابات اور خواجہ سراؤں کے حقوق کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ کے پی پارلیمنٹ نے بھی اس پسماندہ آبادی کے کچھ حقوق کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے، بشمول ووٹنگ۔
ٹرانس جینڈرز کی اقدار کی پیروی
بلیو وینز، حقوق پر مبنی تنظیم جو خواجہ سراؤں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے، خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی کے) سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے محافظوں کے خلاف تشدد کے متعدد واقعات کی رپورٹ اور دستاویزی کر چکی ہے اور خواجہ سراؤں کے گرو بھی ان کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کی معلومات کے اہم ذرائع ہیں۔
بلیووینز کے مطابق صوبے کی آبادی بنیادی طور پر قدامت پسند قبائلی اقدار کی پیروی کرتی ہے، اور اس طرح ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے اکثر زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے، 2016 میں، تشدد، دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کے 17 واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن بدسلوکی کے واقعات رپورٹ نہیں کیے گئے، یہ تعداد کمیونٹی کی طرف سے اٹھائے جانے والے تشدد کی صحیح عکاسی نہیں کرتی۔ پولیس اکثر اس طرح کی بدسلوکی میں خاموش تماشائی کے طور پر کام کرتی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کسی بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں زیادہ اذیت کا شکار ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ 20 مارچ 2016 کو ٹرانس کمیونٹی کے خلاف پولیس کی زیادتی کے معاملے میں، کے پی کے پولیس نے ہری پور میں ٹرانس جینڈرز کے ایک پرامن سماجی اجتماع پر ٹرانس ایکشن الائنس کے زیراہتمام حملہ کیا گیا، خواجہ سراؤں کو بے دردی سے مارا گیا اور اجتماع کو روک دیا گیا۔ ان کے کارکنوں سمیت 20 سے زائد خواجہ سرا زخمی ہوئے اور پولیس نے ان کا قیمتی سامان چھین لیا۔ واقعہ کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ٹرانس ایکشن الائنس، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی وکالت کرنے والے واحد گروپ ہونے کے ناطے، قدامت پسند سیاسی جماعتوں، قانون نافذ کرنے والے حکام اور دیگر سرکاری ملازمین کی طرف سے بھی اس کو دھمکیوں کا سامنا رہا ہے جس کو بعد میں انہوں نے پولیس تھانے میں رپورٹ کیا۔ 9 فروری کو، ٹرانس جینڈر الائنس کے صدر ریاض عرف فرزانہ کو ایک کال موصول ہوئی جس میں "پرائیویٹ نمبر” دکھایا گیا تھا۔ فون کرنے والے نے فرزانہ کو دھمکی دی کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے اپنی وکالت کی کوششوں کو روک دے اور تفریحی کاروبار سے منسلک ہو جائے، اور اگر اس نے بات نہ مانی تو وہ بہت سے مسائل کو دعوت دے گی جسے وہ اور اس کے دوست سنبھال نہیں پائیں گے۔ فون کرنے والے نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ این جی اوز کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور ملک کی بدنامی کرنے سے دور رہیں۔
فرزانہ سے رابطہ کرنے پر، جو پشاور میں خواجہ سرا کمیونٹی کی صدر ہیں، انہوں نے حالیہ حملے پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرکاری ملازمت یا مفت علاج معالجے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کا مطالبہ صرف سیکورٹی ہے۔
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پولیس کو خواجہ سراؤں کے ساتھ انسان جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس کو خواجہ سراؤں کی کمیونٹی کی جنس میں درجہ بندی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں انسان سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے قتل اور حملوں کی حالیہ لہر پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ ہم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ان کے حقوق کے دفاع کے لیے احتجاج کریں گے۔
خواجہ سرا آرزو خان نے کہا کہ پانچ مہینوں میں کمیونٹی کے سات افراد کو قتل کیا گیا، پچھلے سات سالوں میں صوبے بھر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 87 ہے۔ آرزو نے کہا کہ آنے والی حکومتوں نے کمیونٹی کو انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اب تک وہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔
بلیو وینز کے نمائندے ایوب نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کے گرو کے ساتھ جتنے خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں اس کی بنا پر پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 500,000 ’تیسری جنس‘ شہری ہیں، پھر بھی ان خواجہ سراؤں کو ملک میں 2012 تک کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں؛ یہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں، ٹرانس کمیونٹی کو ووٹ اور وراثت کا حق ملا اس لئے ریاست کو مشکلات کے شکار کمیونٹی کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جیسا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کی ضرورت ہے جس میں تمام شہریوں کی جنس سے قطع نظر برابری کا تصور کیا گیا ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور ہدایتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی زندگی اور مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں معاشرے کے نتیجہ خیز ارکان کے طور پر ضم کرنے کے لیے یقینی بنایا جانا چاہیے۔
خواجہ سراؤں کو خود اپنی وکالت کرنا ہو گی
خواجہ سراؤں کے حقوق کی سماجی کارکن قمر نسیم نے بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر ٹرانس جینڈر خواتین کو ان کے خاندان اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں ان کے نام کی توہین سمجھا جاتا ہے، جب ان کی صنفی شناخت کا پتہ چل جاتا ہے، تو اکثر والدین انہیں "مرد” بننے پر مجبور کرتے ہیں، اگرچہ پاکستان میں پہلے بھی متعدد ٹرانس جینڈر حقوق گروپ موجود تھے، ان میں سے اکثر یا تو غیرفعال تھے یا اثر پیدا کرنے کے لیے بہت چھوٹے تھے، کے پی میں ٹرانس ایکشن الائنس کی تشکیل کی جانب پہلے قدم میں، 16 اضلاع میں فوکس گروپ ڈسکس کیے گئے جن میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو درپیش بنیادی مسائل پر توجہ دی گئی۔ نسیم، جنہوں نے ان مباحثوں کی قیادت کی، کمیونٹی کو اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کے لیے متحرک کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ان کے حقوق کی وکالت نہیں کر سکتا اگر وہ خود دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ جب ہم نے بات کی تو ہم پر مغربی ایجنڈوں پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ وہ کہتے ہیں: "ہم نے ان کے نمائندوں کو مطلع کیا کہ ہم تکنیکی اور اخلاقی طور پر ان کی حمایت کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں قیادت کرنی ہو گی۔