ٹرانسپورٹیشن پر کیپرا ٹیکس کیسے لاگو ہوتا ہے؟
گزشتہ سال خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کو ٹرانسپورٹیشن کی مد میں 1500 رجسٹرڈ ٹرانسپورٹ کمپنیوں اور شخصی گاڑیوں سے 70 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوا تھا جبکہ کیپرا حکام کا کہنا ہے کہ یہ اگلے سال 2 ارب روپے تک بڑھایا جائے گا۔
کیپرا نے ٹیکس محصولات اکٹھا کرنے کیلئے یو ایس ایڈ کے پی آر ایم کے تعاون سے آگاہی مہم شروع کر رکھی ہے جو کیپرا حکام کے مطابق بڑی کامیابی سے چل رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیپرا کا ٹیکس ٹرانسپورٹیشن پر کیسے لاگو ہوتا ہے؟
اس حوالے سے ڈائریکٹر کمیونیکیشن آفتاب احمد نے کہا کہ ہمارا کوئی فکس ریٹ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں کمی بیشی آ سکتی ہے کیونکہ گزشتہ سال ہم نے 70 کروڑ روپے اکٹھے کئے تھے اور اگلے سال ہمارا ہدف 2 ارب روپے تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹیشن سے منسلک مسافر گاڑیاں نہیں بلکہ گڈز لے جانے والی گاڑیاں اس میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا یہ ٹرانسپورٹ اشیائے خوردونوش یا دیگر اشیاء وغیرہ لے جانے پر مشتمل ہوتی ہے تو یہ بین الصوبائی یا بین الاقوامی بھی ہو سکتی ہے اور اس کا ٹیکس کمپنی پر لاگو ہو گا اور اس وقت ہمارے پاس اِنرولڈ ٹیکس پیئر کی تعداد 1500 تک ہے، اس میں رینٹ اے کار سروسز اور Careem وغیرہ بھی شامل ہیں۔
کیپرا کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے مطابق اب بھی بہتری کی گنجائش ہے کہ کیپرا کا ریونیو بڑھایا جائے تو اس میں مزید بہتری کیلئے ہماری کوششیں جاری ہیں لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جتنا بھی لین دین ہے وہ اکثر ان ڈاکومنٹڈ ہوتا ہے تو اس پر بھی غور جاری ہے کہ یہ نظام بھی ڈاکومنٹڈ ہو جائے۔
آفتاب احمد نے مزید بتایا کہ محصولات بڑھانے کیلئے ودہولڈنگ ایجنٹس کی تعداد بڑھا رہے ہیں، جب آپ کے ودہولڈنگ ایجنٹ کی تعداد بڑھے گی تو ظاہر سی بات ہے کہ ٹیکس میں اضافہ ہو گا اور اس کا پتہ ہمیں ایسے چلتا ہے کہ جب کوئی کاروباری شخص اپنا سامان پشاور سے ایبٹ اباد لے جائے تو ہم وہاں کے سروسز پروائیڈر سے اس ٹرانسپورٹر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو جیسے ہی وہ ہمیں ان کی نشاندہی کراتے ہیں ہم ان کو ٹیکس کی ادائیگی کا نوٹس بھیج دیتے ہیں۔
ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے مطابق گڈز کمپنی تو ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہوتی ہی ہے لیکن جب کوئی شخصی گاڑی میں گڈز لے جانے کا کاروبار کرتا ہے تو اس کو بھی ہم اس نیٹ میں شامل کرتے ہیں۔
آفتاب احمد نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت صوبے میں ہمارے پاس 1500 رجسٹرڈ ہیں مگر اس سے زیادہ ہمارے صوبے میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہو رہا ہے تو اس کے لئے ہم فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور صحت کے محکمے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا عزم ہے کہ یہ ہدف اگلے سال چھ ہزار تک پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکومنٹیشن کے دوران ہمیں کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ کرنا ضروی ہے کیونکہ یہ ٹرانسپورٹیشن سے وابستہ لوگ سرکاری پیسوں سے بنی روڈز ہی استعمال کرتے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ از خود ٹیکس ادا کریں۔
آفتاب احمد نے کہا کہ کیپرا کے تحت صرف وہ کمپنیاں آتی ہیں جن کا کاروبار ”گڈز کیریج” (سازوسامان کی ترسیل) سے وابستہ ہو لیکن اگر کسی کی ذاتی گاڑی ہو اور وہ اپنا سامان کسی جگہ سے اُٹھا کر اپنی دوکان یا گھر لے جانا چاہ رہا ہو تو اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہے۔
ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے مطابق اگر صوبے کے اندر کوئی سامان بنانے والی کمپنی کسی ٹرانسپورٹر کے ذریعے سامان لے جانا چاہ رہی ہو تو اس کی ٹیکس ادائیگی کی ذمہ داری ٹرانسپورٹر پر لاگو ہو گی لیکن اگر کوئی ٹرانسپورٹر ہمارے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہو تو کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ ٹرانسپورٹر سے ٹیکس کاٹے ورنہ وہ کمپنی کے ذمے واجب الادا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ٹرانسپورٹر فاٹا یا پاٹا سے سامان ٹیکس ادا کرنے والے علاقوں میں لا رہا ہو تو جہاں پر وہ سامان پہنچا رہا ہو تو وہاں پر وہ ٹیکس ادا کرے گا لیکن جب آپ ٹیکس سے مثتنیٰ علاقوں کے اندر ٹرانسپورٹیشن کا کاروبار کرتے ہیں تو وہاں پر ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔