قدرتی آفات، امدادی کارروائیاں اور مستقبل کا لائحہ عمل
عبد المعید زبیر
گزشتہ کئی دنوں سے پاکستانی قوم بڑی آزمائش کا سامنا کر رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیلاب کی صورت میں نازل ہوئی۔ ایک طرف دریاؤں میں بڑھتی ہوئی پانی کی مقدار تو دوسری طرف برستا ہوا آسمان، جس نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی جو بلوچستان کے کچھ علاقوں سے ایسا شروع ہوا کہ بڑھتا چلا گیا اور سندھ ، پنجاب سمیت کے پی کے کے کئی علاقوں کو بہا لے گیا۔ دوسری طرف سوات، کالام، بحرین سمیت کوہستان کے کئی علاقے پانی کی ظالم لہروں کی نذر ہو گئے۔
سیلابی پانی سے سڑکیں، پل، فصلیں، بستیاں اور عمارتوں سمیت ہر چیز فنا ہو گئی۔ پورے ملک میں اب تک کھربوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایک ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جو کھانے پینے، رہنے سہنے اور داد رسی کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
پہلے دن سے انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ ہر علاقے میں پیش خدمت رہے ہیں۔ انصار الاسلام، الخدمت فاؤنڈیشن، تحریک اللہ اکبر، تحریک لبیک، ایم ایس او سمیت کئی تنظیمیں لوگوں کو ریسکیو کرنے اور انہیں ضروریات زندگی مہیا کرنے میں مصروف رہیں مگر یہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تینوں بڑی جماعتوں کا کردار قابل افسوس رہا مگر قابل تعریف، قابل تحسین اور مبارک باد کی مستحق ہے یہ قوم کہ اس نے پارٹی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متاثرین کی مدد کی۔ اس میں ہر طبقے کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچے، بوڑھے، جوان اور عورتوں سمیت ہر کوئی دوسرے سے بڑھ رہا تھا۔
ان آفات کے حوالے سے یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ الروم میں فرماتے ہیں، جس کا مفہوم ہے کہ "زمین اور خشکی پر لوگوں کے اعمال کے سبب فساد ظاہر ہوتے ہیں” یعنی اگر کہیں کوئی آفات نازل ہو، سیلاب ائے، زلزلہ آئے، قحط سالی ہو یا معیشت کی تباہی ہو، یہ سب ہمارے اعمال کے سبب اللہ تعالیٰ ہم پر نازل فرماتے ہیں۔ پہلی امتوں میں سیلاب یا پانی کا عذاب قوم نوح اور قوی سبا پر آیا تھا۔ قوم سبا بہت خوش حال اور سرسبز باغات والی قوم تھی مگر جب اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں میں بہت بڑھ گئی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ڈیموں کے بںد توڑ دیے اور ساری قوم اس پانی میں بہہ گئی۔ اسی طرح قوم نوح کی سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بارشوں کی کثرت فرمائی اور نیچے سے زمین نے پانی اگلنا شروع کردیا، یوں وہ قوم بھی پانی کے عذاب میں بہہ گئی۔ گویا عذاب اور آفات ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی پر ظلم نہیں کر سکتے۔
دوسری بات یہ کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "ولا یظلمون فتیلا”۔ کہ کسی پر ریشے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسے کے ساتھ زرہ برابر بھی ظلم و زیادتی نہیں کرتے۔ اگر دونوں حکموں کو ملایا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو کسی پر ظلم نہیں کرتے، مگر جو آفت بھی کسی قوم یا فرد پر نازل ہو، وہ اس کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے اعمال کی طرف نظر کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرنی چاہیے۔
آفات سے متاثرہ افراد کی داد رسی کرنا، ان کی غم خواری کرنا شریعت محمدی میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ "اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے مخلوق کے لیے نفع مند ہو”. یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک طریقہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا بھی ہے۔ اسی طرح صحیح البخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا”۔ لہذا ایسے وقت میں لوگوں کی مدد کرنی چاہیے اور ہماری قوم نے کی بھی ہے۔ مگر اس وقت پیش آنے والے مسائل و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں کچھ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
دیکھنے میں آیا کہ امدادی کارروائیوں کے دوران کافی مسائل درپیش رہے ہیں۔ ہر علاقے میں کئی کئی تنظیمیں فنڈنگ کرتی ہیں، کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی رفاہی۔ المیہ یہ ہے کہ ایک علاقے میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی ہر رفاہی تنظیم جب لاکھوں کا سامان لے کے جاتی ہے، تو اسے کئی طرح کی مشکلات سامنا ہوتا ہے۔ سامان لے کے جانے والی گاڑی کا کرایہ ہی کئی ہزار بن جاتا ہے، پھر انہیں کئی تجربہ کار افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو سامان تقسیم کرنے اور متاثرین کی خدمت کرنے میں ماہر ہوں۔ مگر یہاں شہروں سے جانے والے بابو ٹائپ لوگ یا غیر تجربہ کار افراد اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ پھر یہ کہ ہر کوئی شروع والوں کو ہی تقسیم کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ آگے کیا ہو رہا ہے، کون کس حالت میں ہے۔ ان کو ریسکیو کیسے کرنا ہے؟ کوئی علم نہیں۔ اگر ان کے لیے تیار کھانا لے کے گئے تو ایک ٹائم کے بعد کھانا ٹھنڈا یا خراب ہونے کا خدشہ، ان کو دیں تو وہاں فورا بنانے کا کوئی انتظام نہیں۔ نہ گیس اور نہ خشک لکڑیاں، پھر تقسیم کے دوران بھی شرافت دار لوگ شرم کے مارے کچھ مانگتے نہیں اور ادھر ادھر کے لوگ دو دو تین تین دفعہ لے جاتے ہیں۔ سامان تقسیم کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ شاید بس ذمہ داری ختم ہو گئی۔ حالانکہ ان کے لیے فوری رہائش اور ضروریات زندگی کا اہتمام بہت ضروری ہوتا ہے لہذا ایک چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی تنظیم اتنا سب کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ پھر ان امدادی پیسوں کے استعمال میں بہت بے احتیاطی دیکھی گئی ہے حالانکہ وہ ایک ایک روپیہ بہت قیمتی ہوتا ہے مگر ہم اس کی اچھی خاصی مقدار آنے جانے، کرائے اور اپنے کھانے پینے میں صرف کردیتے ہیں ۔ ایسے میں سب سے بہترین رفاہی کام اہم مذہب کا رہا ہے مگر ان کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ وہاں ایک تنظیم کی بجائے مختلف تنظیمیں ہیں۔
لہذا ہمیں حکومتوں سے بےپرواہ ہو کر اس پر مستقل سوچنا ہو گا۔ اپنی اپنی علیحدہ رفاہی تنظیمین بنانے کی بجائے ملکی سطح پر چار پانچ بڑی تنظیموں کو مضبوط کیا جائے۔ ہر کوئی فنڈنگ کرکے خود جانے کی بجائے انہیں رقم یا سامان بھیج دے۔ وہ ایک ترتیب سے تمام لوگوں کو دیکھیں اور ان کی خدمت کریں جیسا کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کا کام قابل تعریف رہا ہے۔ اسی طرح جمیعت علماء اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام ہر جگہ پیش رہی مگر جمیعت علماء اسلام کے ہی لوگوں کی کئی تنظیمیں ہیں، الخیر، القاسم، المحمود اور بھی اس طرح کے کئی نام۔ اگر یہ سب مل کر ایک تنظیم بن کے کام کریں تو شاید علیحدہ علیحدہ کام کرنے سے بہتر ہو گا۔ اسی طرح مسلک اہلحدیث کی کئی تنظیمیں اور مسلک بریلوی کے کئی تنظیمیں مصروف عمل ہیں جس سے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں اور ان پیسوں کو اصل مصارف تک نہیں پہنچا پاتے۔
ہمیں مستقبل کے لیے سوچنا ہو گا کہ ایک منظم طریقے سے ایک جماعت بن کر کام کریں۔ اس جماعت کے ذمہ داران کو علم ہو کہ کہاں کس چیز کی ضرورت ہے۔ کہاں مدد پہنچی اور کہاں نہیں۔ کس علاقے کے لوگوں کو اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس طرح کم خرچے میں زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں گے اور ہمارا قیمتی سرمایہ بہترین طریقے سے صرف ہو سکے گا۔