کیلاش ویلی: اوچال تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر
گل حماد فاروقی
کیلاش قبیلے کا سالانہ تہوار اوچال نہایت جوش و خروش سے منایا گیا۔ یہ تہوار فصل کی کٹائی کے وقت منایا جاتا ہے۔ وادی کیلاش میں جب انگور پکتا ہے تو اسے اتارتے وقت ایک حاص قسم کی رسم منائی جاتی ہے اور اس پھل (انگور) کو دیگر تہوار کیلئے بھی رکھا جاتا ہے جبکہ اس سے ایک خاص قسم کی شراب بھی بنتی ہے جو انگوری پانی کہلاتی ہے۔اوچال تہوار مناتے وقت کیلاش لوگ دودھ سے بنی ہوئی چیزیں مثلاً پنیر، پینک وغیرہ اکٹھی کر کے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھیجتے ہیں۔
اوچال تہوار جو وادی رمبور سے شروع ہوا تھا اور وہاں سے ہوتے ہوئے بمبوریت میں اختتام پذیر ہوا۔ کیلاش قبیلے کے لوگ وادی بریر میں بھی رہتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اور راستہ بھی دشوار ہے۔ کیلاش کے اکثر مذہبی تہوار بمبوریت کے بعد وادی بریر میں منائے جاتے ہیں اور وہاں اس کا اختتام بھی ہوتا ہے مگر وہاں بہت کم لوگ جاتے ہیں۔
اس تہوار کو دیکھنے کیلئے بارش کے باوجود کثیر تعداد میں غیرملکی سیاح آئے تھے جن میں تقریباً ہر ملک کی نمائندگی موجود تھی۔ اس تہوار میں کیلاش لوگ اپنے عقیدے کے مطابق بکرا کاٹ کر قربانی بھی کرتے ہیں اور اس کا خون ان کے مذہبی مقامات پر چھڑکایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک مذہبی تہوار ہے اور یہاں کے لوگ اسے خود مناتے ہیں مگر امسال پہلی بار صوبائی حکومت نے ان لوگوں کے ساتھ مالی طور پر تعاون کیا اور محکمہ اوقاف و اقلیتی امور کی جانب سے کیلاش کے چیف قاضی کو نقد تین لاکھ روپے دیئے گئے تاکہ ان تینوں وادیوں میں اوچال کی تہوار منانے والے لوگوں کے ساتھ مالی طور پر مدد ہو۔
اس کے علاوہ کیلاش کے مذہبی رہنماء جو قاضی کہلاتا ہے، حال ہی میں سات مزید قاضی مقرر ہوئے، ان کو بھی پچاس ہزار روپے کا اعزازیہ دیا گیا اور یتیم بچوں میں بھی امدادی چیک تقسیم کئے گئے جبکہ 550 لوگوں میں چار ہزار آٹھ سو روپے کے چیک تقسیم کئے گئے۔
ان لوگوں کے ساتھ یہ مالی امداد کیلاش کے ایک بیٹے کی کوششوں کی بدولت ممکن ہوئی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پحتون خوا کے معاون خصوصی وزیر زادہ کیلاش کے مطابق ان کی کوشش ہو گی کہ کیلاش لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کا بھی شکریہ ادا کیا کہ ان مسلمانوں کے پیار محبت اور ان کے تعاون کی وجہ سے آج کیلاش لوگ نہایت آزادی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ یا مشکلات کے اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
اوچال تہوار کو دیکھنے کیلئے اقلیتی امور پر ایک رکنی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شعیب سڈل، خیبر پحتون خوا حکومت کے صوبائی سیکرٹری برائے اوقاف محمود اسلم، ایڈیشنل سیکرٹری عبد الغفور شاہ، ڈپٹی کمشنر چترال، کوہاٹ سے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی سردار رنجیت سنگھ، ان کے اہل خانہ اور محتلف ممالک سے سیاح آئے ہوئے تھے۔
ان غیرملکی سیاحوں سے جب کیلاش اور پاکستان کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کیلاش بہت خوبصورت وادی ہے اور یہاں کے لوگ نہایت اچھے، بااخلاق اور مہمان نواز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور چترال کا مثالی امن تو پوری دنیا میں مشہور ہے، ہم رات کے دو، تین بجے بھی ان سڑکوں پر بغیر کسی سیکورٹی کے پھرتے ہیں مگر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنے گھر میں موجود ہیں۔
ان سیاحوں نے مغربی میڈیا میں پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈے کو رد کیا اور کہا کہ پاکستان میں ہم نے کسی قسم کی دہشت گردی نہیں دیکھی۔
سردار رنجیت سنگھ نے بتایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو جتنی آزادی حاصل ہے کاش کہ اس کے نصف برابر بھی ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کو ملتی تو ہم بہت خوش ہوتے۔
کیلاش سے تعلق رکھنے والی ایک کالج کی طالبہ ششمیتا نے سب لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی درخواست کی کہ بعض ناعاقبت اندیش لوگ سوشل میڈیا میں کیلاش خواتین کے بارے میں نہایت غلط اور من گھڑت قصے پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، کیلاش لوگ نہایت مہمان نواز ہیں اور آنے والے مہمانوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں جسے بعض گندے ذہن کے لوگ غلط رنگ دیتے ہیں۔
سید گل کیلاش نے اس تہوار کی تفصیل بتائی اور سب لوگوں کو دعوت دی کہ مہذب طریقے سے آئیں، ان خوبصوت تہواروں سے لطف اندوز ہوں اور ہماری ثقافت اور روایات کا بھی خیال رکھیں۔
عیسائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ماہر نفسیات نے بتایا کہ میں نے کہیں بھی اتنی رنگینی اور قدرتی حسن نہیں دیکھا تھا، میں اس سے بہت متاثر ہوئی اور دل کرتا ہے کہ بار بار یہاں آؤں۔
اوچال تہوار کی آخری رسومات رات بھر جاری رہیں اور بارش اور سردی کے باوجود کثیر تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح یہاں موجود تھے اور اس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔