حالیہ بارشیں: ملک بھر میں 630 افرادجاں بحق 1130 زخمی
غلا م اکبرمروت
حالیہ بارشوں نے ملک بھر میں تباہی مچا دی، صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع ٹانک ہے جہاں پائی نامی گاؤں کے 80 فیصد گھر منہدم ہو چکے ہیں۔ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد وشمار کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے اب تک 630 افراد جاں بحق اور 1130 زخمی ہو چکے ہیں۔
پچھلے ماہ، جولائی کی 11 تاریخ کو پائی کے رہائشی معمول کی بارش سمجھ کر بے فکر تھے کہ شمال کی طرف سے آنے والے سیلابی ریلے نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عام طور پر پانی بہہ کر نکل جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور پانی پورے گاؤں میں کھڑا رہا جس سے چند گھنٹوں میں دیواریں اور کمرے وغیرہ گرنے لگے۔ یہاں بارش اور بعدازاں ہیضے کی وباء سے سات افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
آج ٹانک کے علاقے شاہ عالم میں بارش کے باعث ایک مکان کی چھت گر گئی جس میں 7 بکریاں ہلاک ہوئی ہیں۔ ٹانک شہر اور مضافات میں مسلسل 8 گھنٹے تک بارش جاری رہی۔ عنایت اللہ نامی چرواہا اہل علاقہ کی بکریاں مزدوری لے کر چراتا تھا جس نے بارش سے بچانے کیلئے بکریوں کو ایک کمرے میں ٹھہرایا کہ اس دوران اس کمرے کی چھت گر گئیجس سے کم سے کم سات بکریاں ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئی ہیں۔
ٹانک کے سینئر صحافی رفیق احمد کنڈی نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ رات سے ٹانک شہر اور مضافاتی علاقوں میں وقفہ وقفہ سے موسلادھار بارش جاری ہے جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں کے مکینوں کی مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔ ٹانک کے سنگم پر واقع جنوبی وزیرستان کے پہاڑی سلسلوں میں بھی بارش جاری ہے جس سے ٹانک میں سیلاب آنے کا خدشہ ہے کیونکہ ٹانک ایک نشیبی علاقہ ہے۔
اسی طرح بونیر میں ایک دن کے وقفے کے بعد پیر بابا کے میدانی علاقوں اور نواحی پہاڑی سلسلوں ایلم، دوہ سرے میں موسلادھار بارش جاری ہے۔ پہاڑی سلسلے میں واقع علاقے کلیل میں گزشتہ شب سید عالم نامی شخص کے گھر پر سلائیڈنگ کی وجہ سے بھاری پتھر آ گرا جس کے نتیجے میں سید عالم کی اہلیہ شدید زخمی ہوئی ہیں جبکہ گھر کا ایک حصہ مکمل طور پر گر چکا ہے، ملبے تلے آ کر ایک بکری بھی ہلاک ہوئی ہے۔
چترال میں شدید بارش سے متعدد مقامات میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے، اپر چترال میں کئی مقامات کا رابطہ ہیڈکوارٹر بونی سے منقطع ہو چکا ہے۔ چترال اپر اور لوئر کے کئی مقامات پر سیلاب نے لوگوں کو محصور بنا دیا ہے۔ سڑکیں اور پل سیلاب برد ہونے کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔
کچھ مقامات پر ٹی ایم اے اور سی اینڈ ڈبلیو نے پھرتی دکھاتے ہوئے فوری طور پرسڑکیں بحال کر دی ہیں جن میں جنجریت کوہ سوئیر روڈ اور شیشی کوہ مدک لشٹ روڈ شامل ہیں تاہم بالائی چترال کے دیومالائی گاؤں سنوغر کا رابطہ میرا گرام نالہ میں طغیانی کے سبب پل اور سڑک کے دریا برد ہونے کے نتیجے میں بالکل کٹ کر رہ گیا ہے۔
سنوغر و میراگرام آنے اور جانے والوں کو بونی مستوج روڈ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ تورکہو کے بالائی مقام اجنو میں سیلاب سے لنک روڈ سمیت آبپاشی و آبنوشی سکیموں کو نقصان پہنچا ہے۔ لوئر چترال میں رمبور گول میں سیلاب آنے سے ہزاروں فٹ عمارتی لکڑیاں دریابرد ہو گئیں اور آبنوشی سکیمز سمیت نہری نظام کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب سے بڑی تعداد میں مچھلیاں بھی ہلاک ہوئی ہیں۔ دو مقامی بجلی گھروں کے چینلز کیچڑ اور ملبے سے بھر گئے ہیں جس کی وجہ سے بجلی منقطع ہو چکی ہے۔
کل منگل کے روز دن بھر ہلکی اور تیز بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا جس سے مین چترال پشاور روڈ پر برساتی نالوں میں بھی سیلاب آنے کی وجہ سے آمدورفت میں رکاوٹ رہی اور گاڑیوں و مسافروں کو جگہ جگہ رکاوٹیں ہٹانے کیلئے انتظار کرنا پڑا۔ سیلاب سے ضلع بھر میں کھڑی فصلوں، باغات کو نقصان پہنچا ہے تاہم کہیں سے بھی کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
ٹانک کے گاؤں پائی میں ایک بار پھر سیلابی ریلہ داخل ہو گیا ہے جس سے بچی کچی دیواریں زمین بوس ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ پائی کے رہائشی ذوہیب کنڈی کے مطابق گزشتہ مہینے کی 11 تاریخ کو آنے والے تباہ کن سیلاب نے گاؤں پائی کے اسی فیصد رہائشی مکانات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ اب بچی کچی دیواریں اور کمرے مسلسل بارش سے گر رہے ہیں۔ یہاں کے ہزاروں افراد پہلے ہی بے گھر ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اب مزید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔
ایک طرف جہاں پائی گاؤں کے سیلاب زدہ گان کو حکومتی امداد سے بدستور محروم رکھا گیا ہے وہیں پر ضلعی انتظامیہ اور دیگر محکموں کی جانب سے بھی کوئی امدادی ٹیم وہاں پر نہیں بھیجی گئی۔ علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب سے نمٹتے آ رہے ہیں اور انتظامیہ کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔
بارشوں نے دیگر شہروں کی طرح بنوں کو بھی متاثر کیا ہے جہاں نکاس آب کے نظام پر گزشتہ سال ڈبلیو ایس ایس سی کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہے لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے نتیجہ صفر ہی ہے۔ کیونکہ آج بھی بارش کا پانی نکاسی آب کے نالوں اور پائپوں کی بجائے گھروں اور دکانوں کے اندر جانے لگا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث حالیہ بارشوں سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا، بارشوں سے بلوچستان میں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے جہاں کم بارش ہوتی تھی اب وہاں بھی زیادہ بارشیں ہوئیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کے ہمراہ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ بارشوں سے متاثرہ افراد کی مالی معاونت کر رہے ہیں، بارشوں سے متاثرہ صوبوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے کام کر رہے ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ سروے کرائیں گی، جس سے متاثرہ خاندانوں کو مدد فراہم کرنے میں مدد ملے گی، وفاقی حکومت نے سیلاب کے دوران اپنے عزیز و اقارب کو کھو دینے ے والے خاندانوں کو 10 لاکھ روپے معاو ضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جو 80 فی لوگوں کو فراہم کیا جا چکا ہے۔
وزیر منصوبہ بندی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لئے فوری طور پر خصوصی پیکیج جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آفت زدہ علاقوں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے معیار پر پورا اترنے والے خاندانوں کو ایک پیکیج فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ راشن سمیت اپنی ہنگامی ضروریات کو پورا کر سکیں، اس کے علاوہ مستقبل میں آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئے موسمیاتی صورتحال کے مطابق انفراسٹرکچر بنانے کے لئے ترقیاتی شراکت داروں کے سامنے منصوبے بھی پیش کئے جائیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے کہا کہ سیلاب سے اب تک 630 افراد ہلاک اور 1130 زخمی ہو چکے ہیں، اس آفت سے 72 ہزار پانچ سو مکانات کو نقصان پہنچا ، 8 ہزار 7 سو افراد کو بچا کر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، امدادی کیمپ قائم کئے گئے ہیں اور متاثرہ افراد کو راشن فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی طبی دیکھ بھال کیلئے بھی انتظامات کئے گئے ہیں، متعلقہ محکمے عوام کی جانوں کے تحفظ کیلئے چوکس ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے ڈیمز میں پانی کی سطح مزید بلند ہوئی ہے، این ڈی ایم اے اور وفاق مل کر اس مشکل گھڑی میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں، 9 لاکھ لوگوں کیلئے راشن مہیا کیا گیا اور متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس قائم کئے گئے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات، کمبل، مچھر دانیاں فراہم کر رہے ہیں، دن رات کام کر کے لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔