جرگہ کامیاب: شمالی وزیرستان کل یومِ سیاہ نہیں منائے گا
اتمانزئی قبیلے سے حکومتی وفد کی ملاقات، جرگہ نے وقت مانگ لیا
شاہین آفریدی/غلام اکبر مروت
شمالی وزیرستان اتمانزئی قبیلے سے حکومتی جرگہ کی ملاقات، جرگے نے مطالبات ماننے کے لئے وقت مانگ لیا۔
شمالی وزیرستان میں اتمانزو قبیلہ سے مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے بنایا گیا جرگہ گزشتہ روز میر علی عیدک کے مقام پر مقامی رہنماؤں سے ملا۔ حکومت کی جانب سے 16 رکنی کمیٹی نے اتمانزئی قبیلے کے 54 رکنی جرگے سے ملاقات کی اور اٹھائے گئے مسائل پر بات چیت کی گئی۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکن انور داوڑ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جرگے نے اتمانزئی قبیلے کے عمائدین کے مطالبات ماننے کے لئے 10 دن کا وقت مانگا جبکہ سابق وزیراعلی اور جرگے کے سربراہ اکرم خان درانی کے کہنے پر مزید 5 دین کی توسیع کر دی گئی۔ انور داوڑ کے مطابق حکومت جرگے کی جانب سے یقینی دہانی کرائی گئی کہ وزیراعظم، وزارت دفاع اور آرمی کے عہدیداروں سے ان مسائل پر بات چیت کریں گے۔
انور داوڑ نے بتایا کہ "حکومتی جرگے کے کہنے پر عیدک کے مقام پر بلاک کیے گئے روڈ کو کھول دیا گیا تاہم دھرنا بدستور جاری رہے گا، مقامی رہنماؤں کی جانب سے وزیرستان میں 14 اگست یوم آزادی کو سیاہ دن کے طور پر نا منانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔”
شمالی وزیرستان کے رہنما گزشتہ 28 روز سے ضلع کے آٹھ مقامات پر عدم تحفظ اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، انہوں نے بطور احتجاج ضلع کے تمام کاروباری مراکز اور ٹریفک کے راستے بند کر دیے تھے۔
تاہم اتمانزئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں لیکن وہ ناکام رہے ہیں اور اگر موجودہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اسلام آباد جا کر احتجاج کریں گے۔
اتمانزئی قبائل علاقے میں صرف امن کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ضرب عضب آپریشن کے بعد سے اب تک 480 افراد ٹارگٹ حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان افغانستان کے صوبہ خوست کے مشرق میں واقع ہے اور 2014 میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے یہاں آپریشن کیا تھا جس میں اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے گزشتہ ہفتے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں عدم تحفظ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال شمالی وزیرستان میں مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 42 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوئے جن میں 37 فوجی بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق رواں سال اس خطے میں ٹارگٹ کلنگ کے 63 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں سے زیادہ تر میر علی میں سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب مذاکرات کے بعد حکومتی جرگے کے سربراہ اکرم خان درانی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آج بھی شمالی وزیرستان میں دو بندے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں، یہاں حالات خراب ہو رہے ہیں جس کا احساس تمام تر اپوزیشن پارٹیوں کو ہے لیکن صوبائی حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔
اکرم خان درانی نے بتایا "پرسوں میری وزیراعظم سے میٹنگ ہوئی تھی اور یہ جرگہ وزیراعظم کے کہنے پر آیا ہے۔ اس جرگے کے ذریعے فی الوقت مسائل حل ہوتے نظر آ رہے ہیں، ہم نے متعلقہ حکام سے کہہ کر یہاں انٹرنیٹ اور فون سہولت کھول دی ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس مسئلے پر فوری بیٹھ کر بات چیت کریں اور اس کا مستقل حل نکالیں۔”
اکرم خان درانی نے مزید بتایا کہ شمالی وزیرستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اگر یہاں امن ہو گا تو خوشحالی آئے گی جو ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے یقینی دہانی کرائی کہ معززین کے تمام تر مطالبات حکومت اور وزیراعظم کے سامنے رکھ کر انہیں منوانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
خیال رہے کہ اتمان زئی شمالی وزیرستان کا ایک بڑا قبیلہ ہے جس کے لوگ شمالی وزیرستان کے علاوہ بنوں اور افغانستان میں بھی رہائش پذیر ہیں۔
مروت قومی جرگہ اور مشران بنوں کا کردار
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے کمشنر بنوں ارشد خان نے مروت قومی جرگہ کے امیر الحاج محمد اسلم خان رئیس آف عیسک خیل اور نائب امیر و سپریم کمانڈر اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ اختر منیر مروت سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے مروت قومی جرگہ کے مشران، اقوام بنوں کے مشران اور بنوں میں آباد اتمان زئی قبیلے کے مشران کے ہمراہ جا کر پشتون روایات کے مطابق جرگہ (نناواتے) کیا اور دنبے ذبح کر کے اتمان زئی قبائل سے دھرنہ ختم کرنے کی اپیل کی تھی جس پر مظاہرین نے جرگہ قبول کرتے ہوئے 24 گھنٹوں کیلئے سڑکیں کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے مشران جرگہ سے کہا تھا کہ وہ حکومت سے رابطہ کر کے قیام امن کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ اس پر جرگہ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور حکومت کو پیغام پہنچایا گیا کہ قیام امن کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے مشران پر مشتمل جرگہ تشکیل دے کر بھیجا جائے اور قیام امن کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
10 اگست 2022 کو وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے میران شاہ اور میر علی میں امن کی صورتحال اور دیگر ایشوز پر قبائلی عمائدین کے احتجاج پر اتحادی جماعتوں کے مشران پر مشتمل سولہ رکنی جرگہ قائم کیا جس میں خیبر پختونخوا میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔
جرگہ میں اکرم خان درانی، سینیٹر مولانا عطا الرحمن، پی پی پی کے نجم الدین خان اور فیصل کریم کنڈی، عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان، قومی وطن پارٹی کے سکندر شیرپاؤ، مسلم لیگ ن کے انجینئر امیر مقام خان، مرتضی جاوید عباسی، این ڈی ایم کے عبداللہ ننگیال، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور پروفیسر ابراہیم خان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے حیدر خان ایڈوکیٹ، نیشنل پارٹی بزنجو گروپ کے مختیار باچا، جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے فیاض خان، جمعیت اہل حدیث کے ذاکر شاہ اور جمعیت علماء پاکستان کے مولانا عطاء الحق درویش کے نام شامل تھے۔
تاہم وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ سولہ رکنی جرگہ کی سربراہی خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے کی، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم خان، پی پی پی کے نجم الدین خان، قومی وطن پارٹی کے سکندر خان شیرپاؤ، این ڈی ایم کے عبداللہ ننگیال شریک ہوئے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کی بجائے میاں افتخار حسین اور پاکستان مسلم لیگ ن کے انجینئر امیر مقام کی بجائے ایم پی اے اختیار ولی شریک ہوئے۔
شمالی وزیرستان کے اتمان زئی قبائلی جرگہ کے مطابق اس سے قبل بنوں کے جانی خیل قبائل سے بھی معاہدہ ہوا تھا لیکن اس پرعمل درآمد نہیں کیا گیا، اگر پندرہ دن تک ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو دوبارہ سڑکیں بند کر کے دھرنا شروع کریں گے، جبکہ احتجاجی کیمپ عیدک کے مقام پر بدستور روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گا۔