سپورٹس کھیلنا مرد کا کام ہے ناکہ لڑکی کا
ترقی یافتہ ممالک کی خواتین سپورٹس کے میدان میں دنیا بھر میں نام کما چکی ہیں کیونکہ وہاں کسی نے بھی ملازمت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں کی
ناہید جہانگیر
لڑکی ہوکر لڑکوں کی طرح لباس پہنے گی، لڑکیوں کے لئے اوچھل کود ٹھیک نہیں اول تو شادی ہوگی نہیں کیونکہ لڑکا نما لڑکی سے کون شادی کریں اور اگر ہو بھی جاتی ہے تو بچے پیدا نہیں کرسکتی۔ یہ ہے وہ من گھڑت باتیں جو ہمارے ہاں خواتین کو سپورٹس کی اجازت نا ملنے کے لئے مشہور ہیں جبکہ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کی خواتین سپورٹس کے میدان میں دنیا بھر میں نام کما چکی ہیں کیونکہ وہاں کسی نے بھی ملازمت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں کی۔
ملک کے دوسرے حصوں کی طرح خیبر پختوںخوا میں بھی خواتین کو فیصلہ سازی کے اختیار کےساتھ ساتھ ملازمت کو اپنی مرضی سے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اجازت تو کیا ہمارے معاشرے میں ملازمت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر کی جاتی ہے کہ یہ مردوں جبکہ وہ خواتین کے کرنے کی ملازمت ہے۔
کھیل کود تمام لوگوں کے ذہنی و جسمانی نشونما کے لئے ضروری ہے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ صرف مرد حضرات ہی کھیل کود یا مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لے۔
خواتین بھی مختلف قسم کے سپورٹس میں حصہ لے کر ملک و قوم کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں کلیدی کردار ادا کرکے تاریخ رقم کر سکتی ہیں لیکن اگر انکو مواقع اور اجازت دی جائے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نا صرف گھر بار سنھبالتی ہیں بلکہ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سپورٹس میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں خواتین کو اگر معاشرے کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب وہ سہولیات بھی میسر نہیں ہے جو دنیا کے اور ممالک کے خواتین کو حاصل ہے۔
خیبرپختوںخوا میں زیادہ تر لڑکیوں کو سپورٹس میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور جن لڑکیوں کو گھر سے اجازت مل جاتی ہے تو پھر جگہ جگہ کھیل کے میدان نہیں ہے جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر آسانی سے پریکٹس کرسکیں ساتھ میں فیمل سپورٹس انسٹرکٹر کی بھی کافی کمی ہے کیونکہ فیمیل انسٹرکٹر نا ہونے کی وجہ سے بھی یہاں کی لڑکیاں اس فیلڈ کی طرف کم آتی ہیں۔
ہر فیلڈ کے لئے مخصوص لباس ہے جو فیلڈ کی پہچان ہوتی ہیں اس طرح سپورٹس کا جو لباس ہے اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ لڑکی ہوکہ لڑکوں والا ڈریس پہنے گی اب یہ کس نے کہا کہ جو لباس سپورٹس میں پہنا جاتا ہے وہ لڑکوں کا ہے اور لڑکی نہیں پہن سکتی۔
ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کھیل کود کا کام تو لڑکوں کا ہے اب یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کھیل کھیلنا صرف لڑکوں کا خاصہ ہے اور کوئی لڑکی کسی بھی کھیل میں حصہ نہیں لے سکتی۔
ماہر ذہنی و جسمانی امراض کسی بھی بندے کے کھیلوں میں حصہ لینا نشوونما کے لئے بہت اہم قرار دیتے ہیں نا صرف ذہنی وجسمانی نشوونما بلکہ بہت سی بیماروں کے خلاف قوت مدافعت بھی بڑھاتا ہے جو ایک انسان کو صحت مند بناتا ہے۔
خواتین جہاں بہت سی اور سماجی و معاشرتی مسائل سے دوچار ہیں وہاں پر اپنی مرضی سے کوئی پیشہ بھی اختیار نہیں کرسکتی اور پھر سپورٹس تو بالکل بھی نہیں والدین کی اجازت مشکل سے ملتی ہے تو چچا ماموں بھائی وغیرہ کو اعتراض ہوتا ہے جب اس مرحلے کو پار کیا جاتا ہے تو لوگ کیا کہیں گے سے دوچار ہوجاتی ہیں کیونکہ لڑکیوں کے سپورٹس میں آنا ٹھیک نہیں ہے ایک تو لباس دوسرا زنانہ بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں یا پھر ماں نہیں بن سکتی جو ایک غلط بات ہے کتنی ہی سپر سٹارز ہیں جنکی شادیاں بھی ہوگئی ہے اور بچوں کی ماں بھی ہیں۔
ہمارے ہاں بچوں اور خاص کر بچیوں کو اس لئے بھی سپورٹس میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے کہ شاید والدین کو کوئی خاص مستقبل بھی نظر نہیں آتا بعض والدین کہتے ہیں کہ کھلاڑی لڑکی سے شادی کون کرے گا جبکہ جو اکا دکا کو ان تمام مشکلات کے باوجود اجازت مل بھی جاتی ہے تو سہولیات کا فقدان ہے گروانڈ نہیں ہے کوئی وظیفہ بھی نہیں ہے جو ان بچیوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں مدد دے۔
جو آگے بڑھ کر مختلف سپورٹس گالا یا فیسٹیول میں حصہ لیتی ہیں انکو اس طرح کی مراعات یا معاوضہ نہیں دیا جاتا جو میل کو دیا جاتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے ہمارے ہاں خواتین کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اب دنیا نے کافی ترقی کرلی ہے ہماری خواتین کو بھی سپورٹس سمیت ہرشعبے میں آنا چاہئے اور اپنا لوہا منوانا چاہیے کیونکہ ہماری خواتین کسی سے کم نہیں ہے۔