افغانستان سے کوئلے کی درآمد: ”طورخم بارڈر کھولنا ضروری ہے”
شاہین آفریدی
افغانستان نے کوئلے کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کہا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے سستے داموں کوئلہ درآمد کرے گا۔ انہوں نے افغانستان کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ڈالر کی بجائے ملک کی مقامی کرنسی میں کوئلے کی سستی اور اچھے معیار کی درآمد فراہم کرے۔ یہ قدم کوئلے کی درآمدات کو سستا کرنے کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔
ماہرین معیشت کے مطابق ملک میں توانائی اور بجلی کی قلت کو روکنے اور سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے یہ لین دین مقامی پاکستانی کرنسی میں کیا جا رہا ہے اور ملک کو سالانہ درآمدی بل میں 2.2 ارب ڈالر سے زائد کی بچت ہو گی۔
دوسری جانب پاکستان کے کوئلے کی درآمد میں دلچسپی کے اظہار کے بعد افغانستان میں طالبان حکمرانوں نے کوئلے پر درآمدی ٹیکس میں 30 فیصد اضافہ کر دیا۔ نئے ٹیکس میں اضافے سے کوئلے کی قیمت 90 ڈالر فی ٹن سے 200 ڈالر تک ہو گئی۔
رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے اس قدم کو زیادہ آمدنی حاصل کرنے کا موقع سمجھا۔ روپے میں کوئلہ درآمد کرنے کی تجویز کو افغان طالبان نے صرف پاکستان کے معاشی مفاد کے لیے فائدہ مند سمجھا۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر ضیاء الحق سرحدی کے مطابق پاکستان 70 فیصد کوئلہ باہر سے درآمد کرتا ہے، جسے مختلف فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
ضیاء الحق سرحدی نے بتایا "پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے کوئلے کی درآمد پر توجہ دے رہا ہے کیونکہ وہ سستا اور اعلی معیار کا ہے، پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے، مختلف پلانٹس کو سستی بجلی فراہم کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے جو کہ کئی عرصے سے بند پڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان سے سستا کوئلہ فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔”
افغانستان سےدرآمد کیا جانے والا کوئلہ پاکستان کی مختلف انڈسٹریز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت اس کوئلے کی ملک کے اندر ترسیل کے لئے ٹرین کا استعمال کر رہی ہے۔
افغانستان سے پاکستان میں غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی بارڈر کراسنگ کے ذریعے کوئلہ درآمد کیا جا رہا ہے۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کی انتظامیہ کے مطابق پاکستان میں روزانہ تین سے پانچ ہزار ٹن کوئلہ لایا جاتا ہے۔
دوسری جانب طورخم بارڈر پر کوئلے کی درآمد روک دی گئی ہے اور صرف پھل کی درآمدات کی جا رہی ہیں۔ تاجروں اور گاڑی چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ویزہ اور کسٹم کلیئرنس نظام میں کئی رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا ہے۔
لنڈی کوتل میں گزشتہ دو دنوں سے رکے ہوئے افغانی ٹرک ڈرائیور غنی الرحمن کا کہنا تھا کہ کسٹم حکام کی جانب سے عام مال بردار گاڑیوں کو بلاوجہ کئی کئی دنوں تک روکا جاتا ہے جس سے ان کو مالی مشکلات درپیش آتی ہیں۔
انہوں نے بتایا "کھڑا ٹرک ہمارے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ لوڈڈ گاڑیاں ٹائر پر بوجھ ڈالتی ہیں۔ ہم کئی دنوں تک روڈ پر ٹرکوں کے نیچے گزارتے ہیں، روزانہ دو سے تین ہزار روپے خرچہ آتا ہے جبکہ کرایہ بھی نہیں ملتا، اگر کسٹم حکام کلیئرنس کے عمل کو تیز کریں تو ہمارا گزارا ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔”
ہمایون شینواری گزشتہ چار سالوں سے مزار شریف سے کوئلے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق طورخم بارڈر پر کوئلے کی ترسیل کی بندش کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، "اگر طورخم بارڈر کو عام روٹین کی طرح کھول دیا جائے تو پاکستان کو فائدہ ہو گا، غلام خان یا انگور اڈہ پر سپلائی سے زیادہ اخراجات آتے ہیں، وہاں کے راستے طویل، غیرمحفوظ اور زیادہ خطرناک ہیں، افغانستان سے کوئلے کی سپلائی کا مقصد ہی اس ملک کو فائدہ پہنچانا ہے تو طورخم بارڈر کو کھولنا اہم ہے۔”
طالبان کی حکومت کو دنیا میں حکمران کے طور پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا اس لیے انہیں معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ دریں اثنا، طالبان کوئلے پر انحصار کر رہے ہیں۔
ضیاالحق سرحدی کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہتر ہو جاتی ہے تو سالانہ تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جو کہ اس وقت ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔
ضیاء الحق سرحدی نے بتایا "پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کی غرض سے 1965 میں کیا گیا معاہدہ 45 سال تک چلا، پھر 2010 میں ایک اور معاہدہ ہوا جو آج تک فعال نہ ہو سکا۔ اس معاہدے کے عملی نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کی ٪70 تجارت چاہ بہار اور بندرعباس پر منتقل ہو چکی ہےجو براہ راست پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔”
پاکستان میں تیل اور بجلی کی قیمتیں غیرمعمولی طور پر بلند ہیں اور اسے بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں میں گھنٹوں بجلی نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے سے سستی بجلی فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔