کیا پشاور کی مسلمان خاتون نے نومسلم سے نکاح کر کے گناہ کیا ہے؟
پشاور کی ایک مقامی عدالت نے نومسلم شہری کی مسلمان زوجہ کو زنا کے الزام میں گرفتار کرنے سے پولیس کو روک دیا۔
زرائع کے مطابق پشاور کی رہائشی اور پسند کی شادی کرنے والی جوڑی کے خلاف پشاور کے ایک مقامی تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، مقدمہ میں ملزمہ خاتون مسماۃ (ف) کے خلاف زنا اور اس کے شوہر کے خلاف بھی زنا اور اغوائیگی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں مدعی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ملزمہ خاتون نے جس لڑکے سے شادی کی ہے وہ عیسائی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے لہذا اُس نے خاتون کو ورغلا پھسلا کر اغواء اور بعد میں شادی بھی کی جو کہ ناجائز اور غیراسلامی فعل ہے اس لئے ملزمہ اور اُس کے کے شوہر کے خلاف زنا اور اغواء کا مقدمہ درج کیا جائے۔
دوسری جانب پسند کی شادی کرنے والی جوڑی نے گرفتاری سے بچنے کے لئے پشاور کی ایک مقامی عدالت میں عبوری ضمانت کیلئے درخواست دائر کی۔ سماعت کے دوران ملزمہ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ملزمہ کے شوہر نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا ہے، انہوں نے اسلام کے مختلف مکاتب فکر کی طرف سے جاری کیے گئے مختلف فتوؤں کا حوالہ بھی دیا کہ کسی بھی شخص کے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان عورت اس سے شادی کر سکتی ہے اور اسی طرح درخواست گزار خاتون کا شوہر مسلمان ہے اور نکاح درست ہے۔وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمہ کے شوہر نے اپنا نام تبدیل کیا اور ان کے بچے کا بھی مسلم نام ہے جب کہ نکاح ایک مولانا نے شریعت محمدی کے مطابق کرایا ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ کا شوہر اسلام قبول کر چکا ہے اس لیے اسے قرآن و حدیث کے مطابق مسلمان سمجھنا چاہیے۔۔
بعدازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد عبوری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرتے ہوئے مقامی پولیس کو ملزمان کی گرفتاری سے روک دیا۔