ملاکنڈ: انتظامی اور عدالتی اختیارات ایک ہی فرد کے پاس کیوں؟
طیب محمدزئی
ملاکنڈ ڈویژن میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کی جانب سے عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے اقدام کو پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بنچ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فوری طور ملاکنڈ ڈویژن کے تمام ایگزیکٹیو مجسٹریٹس کو تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمات کی سماعت سے روکا جائے کیونکہ یہ آئین کے خلاف اقدام ہے۔
پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شرعی نظام عدل ریگولیشن 2009 کے تحت ملاکنڈ ڈویژن میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو عدالتی اختیارات دیے گئے ہیں جو ابھی تک استعمال ہو رہے ہیں جو کہ غیرقانونی اور غیرآئینی ہے کیونکہ مذکورہ اختیارات جوڈیشل مجسٹریٹس کو آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت دیے گئے تھے اور 25ویں آئینی ترمیم کے بعد آئین کا آرٹیکل 247 ختم ہونے سے ملاکنڈ ڈویژن صوبے کے زیر انتظام علاقہ پاٹا (PATA) کی حیثیت ختم ہوئی لیکن ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع ملاکنڈ، لوئر دیر، اپر دیر، سوات، شانگلہ، اپر چترال، لوئر چترال اور بونیر میں اب بھی ایگزیکٹیو مجسٹریٹس عدالتی اختیارات استعمال کر رہے ہیں، تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمات کی سماعت کرتے ہیں جو کہ غیرآئینی اور غیرقانونی اقدام ہے۔
آئینی درخواست میں عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر ملاکنڈ کے تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ججز اور ضلع قاضی کو احکامات جاری کرے کہ وہ ایگزیکٹیو مجسٹریٹس کے پاس زیر سماعت تعزیرات پاکستان کے تمام مقدمات جوڈیشل مجسٹریٹس یا دیگر متعلقہ عدالتوں کو منتقل کریں۔ آئینی درخواست میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور تمام اضلاع کے اعلی جوڈیشل افسران کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس حوالے سے ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے سابق سیکرٹری اطلاعات پشاور ہائیکورٹ بار اختر الیاس ایڈووکیٹ نے پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بار ایسوسی ایشن کے اس اقدام کو خوش آئندہ قرار دیا اور کہا کہ مینگورہ بار کی جانب سے غیرآئینی اقدام کو چیلنج کرنا ایک اچھی کاوش ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت سارے پاکستان میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹس انتظامی اختیارات استعمال کر رہے ہیں جبکہ واحد ایک ملاکنڈ ڈویژن ہے جہاں پر انتظامی مجسٹریٹس عدالتی اختیارات بھی استعمال کر رہے ہیں جو کہ آئین اور قانون کے خلاف اقدام ہے، آئین میں عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات الگ الگ ہیں لیکن بدقسمتی سے ملاکنڈ ڈویژن میں اب بھی مجسٹریٹس عدالتی اور انتظامی اختیارات دونوں ایک ساتھ استعمال کر رہے ہیں جو کہ فاٹا اور پاٹا کے سامراجی نظام کی باقیات ہیں۔
اختر الیاس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انتظامی اور عدالتی اختیارات کو الگ الگ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں اور آئین بھی اس حوالے واضح ہے لیکن اس کے باوجود ملاکنڈ ڈویژن میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹس کی جانب سے جوڈیشل اختیارات استعمال کرنا ماورائے آئین اقدام ہے۔
لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے صحافی اور اینکر پرسن محمد ارشاد کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹس انتظامی اختیارات استعمال کر رہے ہیں جبکہ ملاکنڈ میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹس انتظامی اختیارات کے ساتھ جوڈیشل اختیارات بھی استعمال کر رہے ہیں جو کہ آئین اور قانون کے برعکس ہے، آئین میں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات الگ الگ ہیں اور کوئی بھی ادارہ ایک دوسرے کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے کئی سالوں سے ملاکنڈ ڈویژن میں ایگزیکٹیو مجسٹریٹس جوڈیشل اختیارات استعمال کر رہے ہیں جو کہ ایک غیرآئینی اقدام ہے لہذا صوبائی حکومت فوری طور پر اقدامات اُٹھائے اور فوری طور پر مذکورہ اختیارات جوڈیشل مجسٹریٹس کے حوالہ کئے جائیں تاکہ آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو اور عوام کو فوری اور شفاف انصاف مل سکے۔
آئینی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بنچ نے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے، مزید سماعت دونوں حکومتوں کے جواب آنے کے بعد ہو گی۔ ملاکنڈ ڈویژن سمیت صوبے کی تمام وکلاء برادری پرامید ہے کہ فیصلہ ملاکنڈ عوام اور آئین کی بالادستی کے حق میں آئے گا۔