چارسدہ پولیس کس اختیار کے تحت داڑھی بنوانے پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بنی؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ایک مقامی جرگے نے پولیس کے تعاون سے حجاموں سے حلف لیا ہے کہ وہ اپنی دکانوں میں داڑھیوں کو نہیں منڈھوائیں گے، حلفیہ بیان تھانہ خانمائی پولیس کے مبینہ دستخط موجود ہیں جس سے پولیس انکار کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے انسانی حقوق کے کمیشن، سماجی کارکنوں اور وکلاء نے اس فیصلے کو بنیادی حقوق اور آئین و قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ضلع چارسدہ کے تھانہ خانمائی کی حدود میں مقامی سطح پر عوامی جرگہ نے مقامی حجاموں کو پروانے بھیجے ہیں کہ وہ اپنی دکانوں میں داڑھیاں بنوانے سے گریز کریں۔
ٹی این این کو موصول ہونے والا حلفیہ بیان مقامی جرگہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، حلفیہ بیان حجاموں کے ساتھ منسوب کر کے لکھا گیا ہے "میں اس تحریر کی رو سے اقرار کر کے لکھ دیتا ہوں کہ میں اپنی دکان میں سنت نبویﷺ کے خلاف داڑھی نہیں بناؤں گا، اگر سنت نبویﷺ کے خلاف داڑھی بنائی تو اہل علاقہ کو میرے خلاف کاروائی کا اختیار حاصل ہے۔”
جاری کردہ حلفیہ بیان میں حجاموں، عوامی جرگہ کے چیئرمین اور تھانہ خانمائی کے ایس ایچ او کے دستخط کیلئے جگہ بنایا گیا ہے جس پر پہلے دستخط اور مہر مبینہ طور پر ایس او ایچ تھانہ خانمائی کے ہیں جبکہ ایس ایچ او خانمائی اپنے دستخط سے انکار کرتے ہیں۔
ضلع چارسدہ میں پولیس نے اعلیٰ سطح پر تاحال اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا ہے لیکن معاہدے پر موجود دستخط کے حامل تھانہ خانمائی کے ایس ایچ او فضل دیان نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط ان کے نہیں ہیں جبکہ مہر کے بارے میں وہ اپنے عملے سے پوچھیں گے۔
تھانہ خانمائی کے ایس ایچ او فضل دیان نے ٹی این این کو بتایا "دراصل یہ معاہدہ داڑھیوں میں ڈیزائن بنوانے کے خلاف تھا جس پر ہمیں جرگے نے بتایا کہ آپ خلاف ورزی کرنے والے پر 30 ہزار جرمانہ لگائیں گے جس سے میں نے انکار کیا۔”
معاہدے پر ایس ایچ او کے دستخط اور تھانے کی مہر ثبت کرنے کی تصدیق یا اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے کوئی انکوائری مقرر نہیں کی گئی ہے جبکہ متعلقہ ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت عمل کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عوامی جرگہ کے ایک ذمہ دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تصدیق کی کہ معاہدے پر دستخط اور مہر تھانہ خانمائی پولیس کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی جرگہ اور حجاموں کے درمیان معاہدے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ اکثر لوگ عید قربان پر حجاموں کے ساتھ قربانی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ داڑھیاں مونڈھواتے ہیں اور یہ حلفیہ بیان 2 جولائی ہفتے کے دن حجاموں سے لیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے جرگے اور پولیس کے اس اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت اس کی شخصی آزادی چھیننے کے مترادف ہے اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والے جرگے کے ارکان اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل فرہاد آفریدی نے بتایا کہ اس مسئلے میں دو قسم کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ اداروں یا محکموں کے اپنے بنائے گئے قوانین ہیں جن کے تحت نجی زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 4 شخصی زندگی کی آزادی کو یقینی بناتا ہے اور اس ‘غیرقانونی’ عمل میں شخصی زندگی متاثر ہوئی ہے۔
ایڈوکیٹ فرہاد آفریدی نے کہا "کسی کو بھی، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرے چاہے وہ اے سی، ڈی سی، علاقہ ایس ایچ او ہو، سفید پوش یا جرگہ مشران ہوں، انفرادی یا اجتماعی طور پر بغیر کسی قانونی وجہ کے کسی کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔”
ہائی کورٹ وکیل فرہاد خان نے سوال اُٹھایا کہ پولیس نے کس اختیار کے تحت داڑھی بنوانے پر پابندی لگائی یا اس معاہدہ کا حصہ بنی؟ اس معاملے میں آرٹیکل 25 کی بھی خلاف ورزی ہوئی جس کے مطابق تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور کسی بھی شہری کو قانون کے حق سے محروم نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ تھانہ پولیس اور جرگہ مشران کے معاہدے پر دستخط غیرقانونی ہیں، "داڑھی رکھنا یا نہ رکھنا مذہبی نہیں مسلکی مسئلہ ہے، اب اگر مصر کے شہریوں کو دیکھیں تو وہاں پر داڑھیاں منڈھوائی جاتی ہیں، عرب ممالک کے لوگ چھوٹی چھوٹی داڑھیاں رکھتے ہیں اور پاکستان میں کوئی بڑی داڑھیاں اور کوئی چھوٹی داڑھیاں رکھتا ہے تو یہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔”
ایڈوکیٹ فرہاد نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت انہوں نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اس ضمن میں متعلقہ ایس ایچ اور جرگہ مشران کے خلاف ایف آئی آر ہو سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق کے کمیشن ایچ آر سی پی نے بھی اس عمل کی مذمت کی ہے اور متعلقہ انتظامیہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایچ آر سی پی خیبر پختونخوا کے وائس چیئرمین اکبر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ اس معاملے میں پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور ریاست پاکستان کے اداروں، محکموں، افراد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی کے اہداف کا تعین کریں۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے ضلع چارسدہ کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں اور مقامی جرگہ کے افراد کے خلاف کاروائی کرے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حکومت پر قبضے کے بعد انتہاپسندی کے اثرات خیبر پختونخوا پر مرتب ہو رہے ہیں، گزشتہ ہفتے قبائلی ضلع باجوڑ میں مذہبی کارکنوں کی جانب سے خواتین کے مارکیٹ میں آنے پر پابندی کے اعلانات کئے گئے تھے جبکہ بعد میں علاقہ مشران نے ان پابندیوں سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔