خیبر پختونخوا میں ٹیکس کلیکشن کا ادارہ کیپرا مانیٹرنگ کیسے کرتا ہے؟
خیبر پختونخوا میں ٹیکس کے متعلق شکایات کے ازالے اور ٹیکس نیٹ میں سروسز پروائڈرز کو لانے کیلئے جدید تقاضوں کے عین مطابق مانیٹرنگ نظام بنایا گیا ہے جس میں تحقیقاتی نظام کے تحت خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی (کپرا) نہ صرف ٹیکس وصول کرتی ہے بلکہ یہی رقم ترقیاتی کاموں کیلئے بھی فراہم کرتی ہے۔
ٹیکس کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یو ایس ایڈ کے تعاون سے کیپرا نے اعتماد خبیر پروگرام شروع کیا ہوا ہے جس کا مقصد عوام کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ ان کے ٹیکس ہی سے صوبے کی ترقی اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو گا۔
کیپرا کے ڈائریکٹر لیگل ٹیکس پالیسی آفتاب احمد کا کہنا ہے کہ فی الحال ٹیکس خیبر پخونخوا کے بندوبستی علاقوں پر نافذ کیا جا چکا ہے اور قبائلی اضلاع اس نظام سے باہر ہیں جبکہ اتھارٹی یہ نظام قبائلی اضلاع تک بھی بڑھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اتھارٹی عوامی شعور اجاگر کرنے کیلئے مختلف فورمز پر مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد سروسز پروائڈر سے ٹیکس کی وصولی ہے تاکہ صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے اور جو افراد ٹیکس نہیں دے رہے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی ہو سکتی ہے۔
آفتاب احمد نے کیپرا کے نظام کے سٹرکچر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایک خدمات فراہم کرنے والا اور دوسرا خدمات لینے والا (کسٹمر) ہوتا ہے، اس میں ادارہ بطور ٹیکس ایجنٹ کردار ادا کرتا ہے اور پھر کیپرا اس سارے عمل کی نگرانی کرتی ہے۔
انہوں نے مانیٹرنگ کے نظام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال صوبے میں ٹیکس کلچر نے پوری طرح فروغ نہیں پایا لیکن ادارے کی بھرپور کوشش ہے کہ سروسز پروائڈرز کو قائل کرے۔ کہتے ہیں کہ ان کے اس نظام میں زیادہ تر ریسٹورنٹ شامل ہیں جہاں پر ریمز کے نام سے ایک مشین میں سافٹ وئیر انسٹال کیا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے والی رسید کی ایک کاپی کیپرا کو بھی ملتی ہے اور پھر ان کے انوائسز اور گوشوارے قانون کے مطابق دیکھے جاتے ہیں۔
آفتاب احمد نے کسٹمر سے اپیل کی کہ جب بھی وہ کسی بھی سیلز پروائڈر سے رسید وصول کریں تو انہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ رسید پر این ٹی این نمبر موجود ہے کہ نہیں، اگر نہیں ہے تو وہ کیپرا کے حکام کو واٹس ایپ یا ویب سائٹ کے ذریعے شکایت کر سکتے ہیں جس پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کیپرا کی جاری کردہ معلومات کے مطابق تاحال 18 ہزار سروسز پروائڈر نیٹ ٹیکس میں شامل ہوئے ہیں جبکہ ادارے کے اوائل میں صرف 200 افراد شامل تھے اور مزید کاروباری اور خدمات فراہم کرنے والے افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کے ڈپٹی کلیکٹر سعود خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مانیٹرنگ کا اصل فائدہ یہی ہے کہ سروسز پروائڈر مہینے کے اختتام پر اپنی ٹیکس ریٹرنز جمع کراتے ہیں، کیپرا کی آڈٹ ونگ اس نظام کو دیکھتی ہے۔
ڈپٹی کلیکٹر سعود کے مطابق کیپرا میں ایک تحقیقاتی نظام ہوتا ہے جو پورے ٹیکس اور سروسز پروائڈر کے نظام کو دیکھتا ہے کہ کس نے کتنا ٹیکس جمع کرایا ہے، ”ہم نے جی آر اے سسٹم بھی بنایا ہے کہ جس میں شکایات درج ہوتی ہیں اور پھر ان شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق عوام کا زیادہ تر واسطہ ہوٹل، ریسٹورنٹس اور طبی سہولیات فراہم کرنے والے سروسز پروائڈرز سے پڑتا ہے اور وہاں سے زیادہ شکایات موصول ہوتی ہیں کیونکہ وہاں پر زیادہ تر پیمنٹ کیش میں ہوتی ہے اور اگر کوئی رسید مانگے تو ان پر این ٹی این نمبر نہیں لکھا ہوتا ہے جس کے اوپر شکایات موصول ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصول کرنے والے سروسز پروائڈر اگر کسی سے زیادہ ٹیکس وصول کریں تو ہمیں نصب کردہ ریمز کے ذریعے معلوم ہوتا ہے جس پر متعلقہ افسران ایکشن لیتے ہیں۔
ڈائریکٹر آفتاب احمد کے مطابق کیپرا کے ساتھ ایک بہترین ٹیم ہے اور اس کی بدولت ادارے کی کارکردگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے میں عوام کی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جاتا ہے اور عوام کی جانب سے دیئے جانے والے فیڈبیک کو بھی اپنی پالیسیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے ٹیکس وصولی کے حوالے سے بتایا کہ میدانی علاقوں کے ہوٹلز یا ریسٹورنٹ سے سروسز پروائڈ کی مد میں لئے جانے والے ٹیکس کی شرح پہاڑی علاقوں سے کم ہے۔ ان کے مطابق میدانی علاقوں میں 5 فیصد جبکہ انٹرنیشنل لیول کے ہوٹلز میں 15 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے 200 ڈھابوں پر ریمز سسٹم نصب کیا گیا ہے جہاں پر 2 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، یہ ساری رقم صوبے کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔
آفتاب احمد نے بتایا کہ عوام کو یہ جاننا ضروری ہے کہ کون کون سی خدمات پر ٹیکس لگا ہوا ہے اور ان سب کی تفصیل کیپرا کی ویب سائٹ پر پڑی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں تو ان کی پروفائل ہمارے پاس آ جاتی ہے جس کے بعد ان کو مانیٹر کرنا آسان ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کا دیگر ٹیکس کن کن محکموں کو جاتا ہے، اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پہلے وہ کتنا ٹیکس دیتے تھے اور اب وہ کتنا دیتے ہیں تو مانیٹرنگ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے اور یہ سارے معاملات ہم روز بروز دیکھتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں اور یہ سب ان کے زیرنگرانی ہوتا ہے، اگر اس میں کوئی کوتاہی ہو تو قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کرتے ہیں۔
آفتاب احمد نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو قائل کریں کہ یہ زمین اور صوبہ ہمارا صوبہ ہے اور اس کی ترقی آپ ہی کے مرہون منت ہے اور اس کے لئے آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا، اس کے علاوہ اگر کوئی سروسز پروائڈر ٹیکس نہیں دیتا تو اس کا کاروبار بند ہو سکتا ہے۔ لہذا اس ٹیکس سے ڈرنا نہیں چاہئے کیونکہ یہ ایک قومی فریضہ ہے اور اس سے ہی ترقی ممکن ہے ۔