افغان جنگ: درہ آدم خیل کے اسلحہ ساز اب کس حال میں ہیں؟
زبیر آفریدی
جنگ اگر اک طرف بربادی، غربت، ہجرت، بے روزگاری اور بھوک و افلاس کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف کسی خطے میں جاری جنگ جب کئی نسلوں تک طویل ہو جائے تو اس خِطّے میں آباد کچھ لوگوں کی روٹی روزی بھی اس سے جُڑ جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال درہ آدم خیل بازار کے اسلحہ سازوں کی ہے جن کا کاروبار بنیادی طور پر کئی دہائیوں سے جاری افغان جنگ کی وجہ سے پھلا پھولا، اور اب متاثر ہوا ہے۔
درہ آدم خیل کے رہائشی 75 سالہ بزرگ زیر خان کے مطابق درہ آدم خیل میں اسلحے کا کاروبار تقریباً ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے، ”یہاں کے ہنرمند وہ اسلحہ جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ ہو اگر آپ وہ ان کے حوالے کریں تو دوسرے ہی دن اس کی کاپی بنا کر آپ کو دے دیتے ہیں۔”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں زیر خان نے بتایا کہ اسلحہ بنانے کا یہ ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا آ رہا ہے، یہاں کے بیشتر لوگ اسی کاروبار سے وابستہ چلے آ رہے ہیں، ”ہمارے ہاتھوں کا بنا اسلحہ افغانستان میں بیرونی قوتوں کو شکست دینے کیلئے استعمال ہو چکا ہے مگر اب جب سے طالبان کی حکومت آئی ہے تو اس صنعت پر اس کے اثرات پڑے ہیں، کاروباری سرگرمیوں میں کمی آئی ہے اور لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔”
اسلحہ ساز 27 سالہ عارف نے زیر خان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اسلحے کے استعمال میں کمی کی وجہ سے ہمارا کاروبار بُری طرح متاثر ہو چکا ہے، ”میں خود کارتوس بناتا ہوں، انخلا سے پہلے جنگ کے دوران افعانستان میں بہت اسلحہ استعمال ہوتا تھا وہاں سے کارتوس کے خول پاکستان میں لائے جاتے تھے ہم ان کو دوبارہ بھر کر کارتوس بناتے تھے لیکن اب جنگ بند ہونے کے بعد نہ کارتوس استعمال ہوتے ہیں اور نہ یہاں مارکیٹ میں خالی خول دستیاب ہیں، جنگ سے پہلے کلاشن کوف کے ایک خول کی قیمت صرف دو روپے تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 20 روپے ہو چکی ہے جبکہ پستول کا ایک خول جو ایک روپیہ کا تھا اب دس روپے میں ملتا ہے۔
اس بارے میں افغان امور کے ماہر اور شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ صرف جنگ کا رُکنا نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہات ہیں؛ جن میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب سے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگایا گیا ہے تب سے مختلف قسم کے مسائل نے جنم لیا ہے، ایک طرف تو بدقسمتی سے جنگی معیشت ہونے کی وجہ سے اکانومی اِنفارمل ہے تو دوسری طرف باڈر پر پابندیوں نے تجارت اور آمدورفت کو متاثر کیا ہے، ”اب چونکہ بیشتر حصے پر باڑ لگایا جا چکا ہے تو اس طرح کی اِنفارمل ٹریڈ کیلئے کچھ ہی جگہوں پر راستے کھلے ہیں مگر وہاں تک پہنچنے میں ان لوگوں کو بہت زیادہ فاصلہ طے کرنا اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
درہ آدم خیل کی اسلحہ ساز صنعت کتنی پرانی ہے؟
درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کا کاروبار بہت پرانا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں راولپنڈی میں اسلحے کا کاروبار کرنے والے اور افغانستان کے کارخانوں میں اسلحہ بنانے والے چند لوگوں نے یہ صنعت یہاں پروان چڑھائی تھی۔ 1901 میں درہ اور کوہاٹ میں ناکارہ قرار دی گئی سرکاری بندوقوں کے پرزے جوڑ کر بندوقیں بنائی جاتی تھیں۔ اسلحہ بنانے کیلئے استعمال ہونے والے اوزاروں میں مختلف قسم کے ہتھوڑے، دیسی ساخت کے زنبور، چمڑا اور مٹی کی بھٹی شامل ہوا کرتی تھی۔
1902 میں درہ آدم خیل میں اسلحے کے صرف چار کارخانے تھے۔ 1906 میں خلیج فارس سے اسلحہ کی درآمد سے جب دیسی اسلحہ کی مانگ میں کمی آئی تو یہاں کے کاریگروں نے بھی اُس ساخت کی بندوق بنانا شروع کی۔ انگریزوں نے سرحد کے ریٹائرڈ فوجیوں کو بندوق بطور تحفہ دینے پر پابندی لگانے پر بھی غور کیا اور باہر سے آنی والے اسلحہ کی غیرقانونی تجارت بند کرنے کیلئے بھی ٹھوس اقدامات کئے لیکن ان اقدامات کے باوجود بھی یہ تجارت جاری رہی، اور ایک حد تک آج بھی جاری ہے۔