”میرا علاج تو ہو گیا لیکن اب میں کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکوں گی”
بشری محسود
”میرا نام شمع (فرضی نام) ہے۔ میرا تعلق وزیرستان سے ہے۔ میں اسلام آباد شہر میں میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی سٹوڈنٹ تھی۔ شروع میں چند ماہ میں چاچو کے گھر رہی اس کے بعد میں ہاسٹل چلی گئی جہاں میری دوستی ہماری ایک سینئر سے ہوئی جو کہ میری روم میٹ بھی تھی، سب سے زیادہ وقت باہر بوائے فرینڈ کے ساتھ اور پارٹیوں میں گزارتی تھی۔ وہ اکثر مجھے بتاتی تھی کہ وہ کتنا انجوائے کرتی ہے۔ ایک دو بار وہ ضد کر کے مجھے اپنے ساتھ لے گئی، میں نے اسے منع کیا کہ میرا تعلق وزیرستان کے ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے اور ہماری روایات ان چیزوں کی اجازت کبھی نہیں دیتی۔
لیکن وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے مجھے ساتھ لے جاتی اور یوں پھر میں بھی اس کے ساتھ عادی ہو گئی۔ وہ اکثر نائٹ پارٹیوں میں جاتی تھی اور وہاں سب آئس اور دیگر مختلف نشوں کی لت میں مبتلا تھے۔ سب میرا مذاق اڑاتے تھے کہ تم ڈرتی ہو، تم نہیں کر سکتی تو ایک دن میں نے بھی آئس کا استعمال کیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مجھے ایس کی لت لگ گئی۔
ایک دن جب اس کی سالگرہ تھی تو کسی پلازہ کے بیس منٹ میں نائٹ ڈانس پارٹی تھی جس میں، میں نے سب کے سامنے آئس استعمال کیا۔ کسی نے میری ویڈیو بنائی پھر وہ مجھے ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب میں نے انکار کیا تم مجھے دھمکیاں دینے لگے۔ اگلی صبح میرا بھائی مجھے لینے آیا اور بتایا کہ ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں تو میں گھر آ گئی، گھر آ کر معلوم ہوا میری ویڈیو انہوں نے میرے گھر والوں کو بھیج دی ہے اور یوں مجھے ہمیشہ کے لئے کمرے میں بند کر دیا گیا اور میری تعلیم کی خواہش ادھوری کی ادھوری رہ گئی۔ میرے والد یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے اور چند ماہ بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گئے۔
مجھے اپنے والد کی وہ بات کبھی نہیں بھولے گی جب انہوں نے کہا کہ میں نے تمہیں ڈاکٹر بننے کے لئے بھیجا تاکہ تم اپنے علاقے اور خاندان کا نام روشن کر سکو لیکن افسوس کہ کہ تم ڈاکٹر بن کے مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے خود ایک نفسیاتی مریضہ بن گئی ہو۔ اب میرا علاج تو ہو گیا ہے لیکن میں ڈاکٹر کبھی نہیں بن سکتی۔”
شمع کی طرح بہت سارے نوجوانوں کی مختلف کہانیاں ہیں جن کی زندگیاں نشے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہیں۔ قبائلی اضلاع کے نوجواں زیادہ تر اس نشے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ تعلیم کی غرض سے اپنے گھر سے دور دوسرے شہروں میں ہاسٹلوں میں رہتے ہیں اور بدقسمتی سے ان میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد میں 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین ہیں۔ سروے میں کہا گیا کہ خیبر پختون خوا میں 10.7 فیصد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جو باقی صوبوں کے مقابلے میں دوگنا ہے، پشاور شہر میں منشیات کا استعمال باقی شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ دیگر شہروں کے لوگ بھی نشے کے لیے پشاور آتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر منشیات آسانی سے مل سکتی ہے۔
سید علی نقوی دوست ویلفیئر فاونڈیشن کے ڈپٹی منیجر ہے جو آئس کے عادی افراد کی بحالی پر پچھلے 30 سال سے کام کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ دوست ویلفیئر فاؤنڈیشن میں تقریباً 500 نشے کے عادی افراد زیرعلاج ہیں جن میں تقریباً 8 فیمیل بھی شامل ہیں، ان 500 افراد میں تقریباً تمام افراد آئس کے عادی ہیں، ان کا تین مہینے علاج کیا جاتا ہے، پہلے 15 دن میں ان کو نشے سے روکا جاتا ہے جس کے بعد ان کے جسم میں درد شروع ہو جاتا ہے یا ان کا پیٹ متاثر ہو جاتا ہے تو ہم ان کو دوائیاں دیتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ نشے کو نشے سے ختم کرنا ٹھیک نہیں، مطلب کہ ہم آئس کے نشے سے نجات دلانے کیلئے کسی اور نشے میں مبتلا کریں، مطلب موبائل کا زیادہ استعمال وغیرہ، اس کے بعد ہم ان کی پرائمری بحالی کا آغاز کرتے ہیں، جس میں انفرادی سیشن، گروپ سیشن، موٹیویشنل سیشن دیتے ہیں اس کے بعد ہم ان کو مختلف ہنر سکھاتے ہیں۔
تیزی سے پھیلنے کی وجہ
اس حوالے سے سید علی نقوی نے بتایا آئس انتہائی ہائی سٹیمولنٹ نشہ ہے، جب یہ پہلے آیا تو لوگ اس کو پارٹی ڈرگ کہتے تھے لیکن پھر وہ اس کے عادی ہو گئے۔ یہ انسان کو ایکٹیو رکھتا ہے، تقریباً 24 سے 72 گھنٹے تک انسان کو نیند نہیں آتی، جب یہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو آئس کے عادی افراد دوبارہ آئس کے انجکشن لگاتے ہیں جس سے وہ ذہنی طور پر متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک عام انسان کیلئے 24 گھنٹوں سے زیادہ جاگ جانا ممکن نہیں اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر وہ ذہنی تناؤ اور تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا ”لوگ سمجھتے ہیں کہ نیند نہیں آئے گی اور ایکٹیو رہیں گے اس لئے یہ نشہ کرتے ہیں لیکن ان کو اس کے منفی اثرات کا علم نہیں ہوتا، جب وہ ایک بار یہ نشہ کرتے ہیں تو پھر اس کے عادی ہو جاتے ہیں، لڑکیاں اس وجہ سے اس نشے کا شکار ہوئیں کیونکہ یہ ہائی سٹیمولنٹ نشہ ہے، زیادہ تر طلباء اور بالخصوص میڈیکل کے طلباء مطالعے کی غرض سے یہ نشہ کرتے ہیں، کچھ طلبہ شوق سے بھی کرتے ہیں، اگر موازنہ کیا جائے تو میڈیکل کی طالبات کا رحجان اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ آئس تک ان کی رسائی بہت آسان ہے۔”
2013 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق آئس کے عادی افراد میں 22 فیصد خواتین ہیں اور ان میں زیادہ کی تعداد میڈیکل پڑھنے والے طلبہ طالبات کی ہے۔
سید علی نقوی کے مطابق اس کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہر جگہ آسانی سے مل جاتا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا ہے، ”میں یہ نہیں کہتا کہ سرکاری ادارے کام نہیں کر رہے، اے این ایف ہر سال 30 ٹن سے زیادہ آئس پکڑ کر ضائع کرتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ کام کر رہے ہیں، اگر 30 ٹن سال پکڑا جاتا ہے تو آپ سوچیں ہر سال سپلائی کتنی ہو گی؟”