لائف سٹائل

مہنگائی کی زد میں آئی نسوار اور نسواریوں کی نرالی تنقید

عارف حیات

“اس خودداری اور مہنگائی کا کیا، آپ نے تو ہمارے پختونوں کی نسوار پر بھی ٹیکس میں اضافہ کر دیا، مہنگائی کے طوفان میں پختونوں کی نسوار پر بھی ٹیکس لگ گیا۔”

جمعیت علماء اسلام کی خاتون رکن خیبر پختونخوا اسمبلی نعیمہ کشور کو نسوار پر عائد ٹیکس کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔

پٹھانوں میں کہاوت عام ہے کہ “نسوار د خاپیرو نشہ دہ”، یعنی نسوار پریوں کا نشہ ہے۔ اب خیبر پختونخوا کے بجٹ میں پریوں کے اس نشہ پر بھی ٹیکس میں اضافہ ہوا۔

کراچی کا چھالیا، لاھور کا پان اور پشاور کی نسوار پر عوام کی بجٹ میں نظریں مرکوز ہوتی ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے سال 23-2022 کے بجٹ میں نسوار پر عائد ٹیکس میں پانچ فیصد اضافہ کیا۔ اسمبلی اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران جے یو آئی کی رکن نعیمہ کشور نے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کو مخاطب کیا کہ بجٹ کو خوددار بجٹ کا نام دیا گیا ہے مگر اس خودداری کا کیا کرنا جس میں نسوار بھی مہنگی ہو جائے۔

پٹھانوں کا مشہور تکیہ کلام ہے کہ “د نسوارو مازغہ دې، بس پویہ نہ شوم”، یعنی دماغ نسوار کا عادی ہے اس لئے سمجھ نہیں آئی (یعنی غلطی ہو گئی)۔ اب جب ٹیکس بڑھنے کے بعد جولائی کے ”بشکال” (ساون) سیزن کے حبس زدہ ماحول میں قیمت بھی بڑھے گی تو نتیجہ بھی سامنے آ ہی جائے گا۔

خیبر پختونخوا کے بجٹ میں جیسے ہی ٹیکس میں اضافہ کا اعلان ہوا تو نسوار فروشوں نے دس روپے قیمت بڑھائی حالانکہ ٹیکس نفاذ ماہ جولائی سے ہو گا۔ نسوار کا کثرت سے استعمال کرنے والوں کی پہلے سے قیمتوں میں اضافہ پر ٹینشن بڑھ گئی ہے۔

نسوار کا استعمال کرنے والوں نے بھی نرالے انداز میں حکومت پر تنقید شروع کی ہے۔

پشاور کے شہری افسر خان نے نسوار کی ”چُنڈی” تیار کرتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ ہم اسے اپنے مُنہ میں رکھتے ہیں تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے۔

اسی طرح محمد افضل نے بتایا کہ پٹرول کے بعد نسوار بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے، ایسا نہ ہو کہ وفاقی وزیر خزانہ پھر رات کو نیوزکانفرنس میں نسوار کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کرتے رہیں۔

افضل کے ساتھ بیٹھے دوست نے بتایا کہ آئی ایم ایف کو پتہ چل گیا تو قرضہ کی اگلی قسط میں نسوار کی قیمت بڑھانے کی شرط رکھیں گے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں حکومتی ٹیکس میں اضافہ کے بعد یکدم نسوار کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ ہوا۔ جس پر کوہستان کے علاقہ کمیلا کے رضا اللہ آپے سے باہر ہوئے اور ضلع پولیس آفیسر سے معاملہ میں دخل اندازی کے لئے درخواست لکھ ڈالی۔ درخواست کا متن کچھ یوں ہے کہ ابھی صرف ٹیکس میں اضافہ کا اعلان ہوا ہے جبکہ نسوار فروشوں نے وزن کم کر دیا اور قیمتیں بھی بڑھا دیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور بغیر نرخ نامہ کے قیمتیں بڑھانے کا نوٹس لیا جائے۔

اپر کوہستان میں مذکورہ معاملہ کی معلومات پر پتہ چلا کہ نسوار کو اب پرانے ریٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے اور یوں کوہستان ایک بڑے لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے سے بچ گیا۔

ٹیکس میں اضافہ سے نسوار فروشوں نے کچھ زیادہ ردعمل نہیں دکھایا کیونکہ اس سے قبل بھی نسوار فروشوں نے ایک پڑیا بیس روپے میں بیچنے کے لئے چُھری تیز کی تھی، اب ٹیکس میں اضافہ نے اک بار پھر ان کی راہ ہموار کر دی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button