”بجلی غائب، بل اوسان خطا کر دیتے ہیں”
شاہد خان
پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں بجلی لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اس وقت پشاور کے شہری علاقوں میں 8 سے 10 جبکہ نواحی علاقوں میں 16سے 18 گھنٹے تک بجلی غائب رہتی ہے جبکہ بڈھ بیر، متنی، چارسدہ روڈ اور کوہاٹ روڈ سمیت ضلع پشاور کے متعدد علاقوں میں پورا پورا دن اور پوری پوری رات بجلی بند رہتی ہے جس کی وجہ سے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف بجلی کے ستائے صارفین کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں تو دوسری جانب مختلف کاروبار بھی تباہی کے دہانے پر ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت پورے ملک میں بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار 780 میگاواٹ سے تجاوز کر چکا ہے، ملک میں مجموعی طور پر 18 ہزار 720 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ ڈیمانڈ بڑھ کر 24 ہزار 500 میگاواٹ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں بجلی صارفین کو 8 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔
اگر پشاور کی بات کی جائے تو صوبائی دارالحکومت کے شہری علاقوں؛ نوتھیہ، منکراو، لنڈی ارباب، پشتخرہ ، سرکلر روڈ، وزیر باغ، پھندو روڈ، ہزار خوانی، متنی، چمکنی، دلہ زاک روڈ، چارسدہ روڈ، افغان کالونی اور متھرا سمیت بیشتر علاقوں میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ ٹرپنگ روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ ریسکیو 1122 کے ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پشاور کے متعدد علاقوں میں شارٹ سرکٹ کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں قیمتی سامان جل کر خاکستر ہوا، بار بار ٹرپنگ کی وجہ سے صارفین کے الیکٹرونک سامان بھی خراب ہونا معمول بن گیا ہے۔
پشاور کے کہنا ہے کہ بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، شدید گرمی میں گھنٹوں لوڈشیڈنگ نے رات کی نیند اور دن کا چھین چین لیا ہے، بجلی بندش کی وجہ سے رات بھر مچھر کاٹتے ہیں جبکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے بچے ساری رات روتے ہوئے گزارتے ہیں، کئی بار احتجاجی مظاہرے کئے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی اوپر سے مہینے بعد جب بجلی کے بل آتے ہیں تو اوسان خطا ہو جاتے ہیں، بجلی ہوتی نہیں اور ہزاروں روپے کے ماہانہ بل باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں۔
بجلی بندش کے حوالے سے پشاور صدر کے درزیوں (ٹیلرز)، مستریوں (مکینک، الیکٹریشنز) اور دیگر کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سے بجلی لوڈشیڈنگ میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے، پہلے بجلی کے لئے متبادل کے طور پر جنریٹر استعمال کرتے تھے لیکن اب تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جنریٹر کا استعمال ممکن نہیں۔
دکانداروں کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسندی کے بعد امن قائم ہونے پر کاروبار کے لئے فضا سازگار ہوئی تو کورونا کی وبا نے کاروبار تباہ کیا، اب جب کورونا کی وبا سے جان چھوٹی تو بجلی لوڈشیڈنگ نے ایک مرتبہ پھر کاروبار کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ہفتے کے روز جب وزیراعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام سے پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا تو انہوں نے لوڈشیڈنگ کا سارا ملبہ سابق حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ انہیں حیرت ہوئی کہ تحریک انصاف بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے لیکن انہوں نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں ایک میگاواٹ بجلی بھی نہیں بنائی جبکہ نواز شریف دور کی بنائی گئی بجلی بھی غائب کر دی، متعدد پاور پلانٹس بند پڑے تھے جن پر موجودہ حکومت نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
امیر مقام نے واضح کیا کہ مشیر بننے کے بعد انہوں نے فارمولے کے تحت ملنے والی بجلی سے زائد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے، کوشش ہے کہ پورے صوبے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے، اور جو لوگ بجلی بل ادا نہیں کرتے ان کا بھی بجلی پر حق ہے انہیں اتنی بجلی ضرور فراہم کریں گے جس سے ٹیوب ویلز وغیرہ چلا کر پانی حاصل کر سکیں۔