تیل کی دولت سے مالا مال ضلع کرک پینے کے صاف پانی سے محروم کیوں؟
ریاض خٹک
خیبر پختون خواہ کے جنوبی اضلاع میں تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ضلع کرک کا شمار پاکستان کے امیر ترین اضلاع میں ہوتا ہے جس کو وفاقی حکومت کی طرف سے سالانہ اربوں روپے کی رائلٹی دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ خطیر رقم فضول اور ناقص منصوبوں پر ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ یہ منصوبے صرف کرک کے منتخب نمائندوں کے ووٹ بڑھانے کے لئے ہوتے ہیں لیکن کرک شہر کے بنیادی مسئلے پر کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔
کرک شہر میں یوں تو بیشمار مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا اور چل طلب مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے جس پر کسی منتخب نمائندے نے توجہ نہیں دی، کئی دہائیوں سے کرک کے سیاستدانوں نے پینے کے پانی پر سیاست کی ہے۔ سال 2000 سے کرک شہر میں پینے کا پانی بالکل ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے کرک کے شہری دوردراز کے پہاڑی علاقوں سے ٹینکرز کے ذریعے لائے جانے والا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔
صبح سویرے یہ پانی شہری ان ٹینکرز سے خریدتے ہیں۔ کرک شہر کی آبادی 70 ہزار کے قریب ہے جس کے لئے پینے کا صاف پانی انہی ٹینکرز سے 10 روپے فی ٹپکہ، جو کہ 30 لیٹر کا ہوتا ہے، خریدتے ہیں۔
ان مسائل کے حوالے سے کرک کے شہری مدثر محمود نے بتایا کہ صبح سویرے سکول جانے سے پہلے بازار جا کر پینے کا پانی لیتا ہوں پھر سکول جانا پڑتا ہے، ”یہ میں کئی سالوں سے کر رہا ہوں، روزانہ دو ٹپکے پانی گھر لے جاتا ہوں، اسی طرح کرک بازار کے دکاندار بھی ان ٹینکرز سے پانی لیتے ہیں۔”
ایک مزدور اکبر خان نے بتایا کہ یہ بات اپنی جگہ کہ کرک شہر میں پینے کے پانی کا مسئلہ ھے لیکن دوسری طرف جہاں ان واٹر ٹینکرز سے لوگ پانی لیتے ہیں پانی کے انہی ٹینکرز کی وجہ سے ہماری مزدروی بھی لگی ہوئی ہے، ”ہر ایک دکاندار تو پانی لانے کے لئے ان ٹینکرز کے پاس نہیں جا سکتا، وہ مجبوری کے تحت مجھ جیسے مزدوروں کا سہارا لے کر پانی حاصل کرتے ہیں، ان کے لئے ھم نے باقاعدہ ٹپکے خرید رکھے ہیںں جو کہ ان دکانداروں کو 20 روپے فی ٹپکہ کے حساب سے دیتے ہیں جس میں ہماری مزدوری بھی شامل ہوتی ہے۔”
اس حوالے سے مقامی صحافی خالد خان نے بتایا کہ کرک شہر کو روزانہ کے حساب سے 20 لاکھ لیٹر پانی کی ضرورت ہے جو کہ صرف پینے کا پانی ہے لیکن حکومت اس ضرورت کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے، کرک شہر کا پانی کڑوا ہو چکا ھے لیکن کرک شہر کے مضافاتی علاقوں انڈی کرک اور اوت میں میھٹے پانی کے کچھ ذخائر ہیں جو کہ کرک شہر کی پانی کی ضروریات پورا کر سکتے ہیں لیکن ان علاقوں کے پانی کو پہلے ذخیرہ کرنا بے حد ضروری ہے جو کہ سمال ڈیمز کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے، اگر ان پہاڑوں میں سمال ڈیمز بنائے جائیں تو کرک شہر کو گریویٹی کے ذریعے پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
کرک کے شہری گل سردار کے مطابق آج سے نہیں گزشتہ 22 سالوں وہ پینے کا پانی ان ٹینکرز سے خرید رھے ہیں کیونکہ شہر کو پانی کی ترسیل بند ہو چکی ہے اور شہری مجبوراً پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔
ایک اور شہری عدنان نے بتایا کہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات فراھم کرے جس میں سب سے اھم چیز پینے کا صاف پانی ہے، کرک انتظامیہ اس ضمن میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ھے، فضول منصوبوں پر بے جا اربوں روپے ضائع کئے جا رہے ہیں لیکن پینے کے صاف پانی پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے، ایم پی ایز اپنا ووٹ بنک بنانے کے لالچ میں پریشر پمپ کے لئے زمین سے پانی نکالنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں جس سے میٹھے پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے اور کڑوا پانی اوپر آ رہا ہے۔
اس حوالے سے میونسپل کمیٹی کرک کے تحصیل میونسپل آفیسر اجمل خان نے بتایا کہ کرک شہر کے لئے 11 ٹیوب ویل نصب کئے گئے تھے جو کہ خشک ہو چکے ہیں، گزشتہ 22 سالوں سے کرک شہر میں پینے کا پانی ناپید ہو چکا ہے، سرکاری پانی میونسپل کمیٹی کی طرف سے نہیں دیا جا رہا، تکلیف بہت زیادہ ہے لیکن جہاں پر میٹھا پانی ھے وہاں پر ابھی تک ٹیوب ویل کی تنصیب نہیں ہوئی جبکہ شہر کو کبھی کبھار زیبی ڈیم سے پانی دیا جاتا ھے جو کہ ناقابل استعمال ھے، وہ بدبودار ہو چکا ھے اور مضر صحت بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
عام شہریوں اور سماجی شحصیات کی آراء اپنی جگہ لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی زیادتی ھے کیونکہ کرک شہر نمک کی کانوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کا پانی نمکین ہو چکا ھے اور شہری پانی کے حصول کے لئے دیگر ذرائعے استمال کر رہے ہیں جو کہ دیرپا نہیں عارضی ہوتے ہیں۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ کرک شہر کا یہ مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور مشکل نہیں بلکہ ناممکن ھے، اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے جہاں جہاں پر پانی کے ذخائر ہیں وہاں سمال ڈیمز بنا کر اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔