”کوہِ سلیمان جل رہا ہے، عمران خان سازش سازش کھیل رہے ہیں”
حضرت علی عطار
بلوچستان میں واقع ضلع شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط چلغوزے اور زیتون کے قیمتی جنگل میں لگی آگ پر 2 ہفتے گزرنے کے باوجود قابو نہ پایا جا سکا جبکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق آدھے حصے سے زیادہ قیمتی جنگل جل کر راکھ کا ڈھر بن گئے ہیں۔ لگی اگ مقامی آبادیوں کی طرف بڑ رہی ہے، اب تک تین دیہات خالی کرائے گئے، متاثرین بے سر و سامانی کی حالت میں ریسکیو ٹیموں کے منتظر ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضلع شیرانی کلی شیرغلی کے رہائشی فتح محمد نے بتایا کہ ہمارے جنگل مکمل طور تباہ ہو چکے ہیں اب آگ ہماری ابادیوں کی طرف بڑھ رہی ہے، حکومت بلوچستان نے انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا، اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے کیوں مدد نہیں لی؟
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، انسانی المیہ پیش آ سکتا ہے لیکن ابھی تک ہمارے علاقے میں کوئی ایک ریسکیو ٹیم بھی نہیں آئی، اگ کی شدت اتنا زیادہ ہے کہ آج صبح ایک ہیلی کاپٹر نے دو میل دور متاثرہ علاقے کا فضائی دورہ کیا، ”میں نے ہیلی کاپٹر کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کیونکہ میں ان دو نوجوانوں کی فاتحہ خوانی میں شریک تھا جو آگ بجھانے کے دوران شہید ہوئے، قیامت کا سماں تھا، سبز درختوں میں لگی آگ ناقابل برداشت تھی، بس ہم کیا کرتے بلوچستان حکومت کی طرح ہم بھی بے بس تھے۔”
فتح محمد نے کہا کہ آگ کی وجہ سے اب بھی چار دیہاتوں کو شدید خطرہ ہے جہاں ٹوٹل چار سو گھرانے ہیں، چلغوزے کے درختوں میں لگی اگ پٹرول کے آگ کی طرح خطرناک ہے، حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے جنگلات تو تباہ ہوئے اب خدارا ہنگامی بنیادوں پر ہماری آبادی کو بچایا جائے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران اک مقامی نوجوان نے بتایا کہ اب تک تین بڑے دیہات کو خالی کرایا جا چکا ہے، ابھی تک نہ ریسکیو ٹیمیں روانہ کی گئیں نہ حکومتی نمائندے آئے ہیں، لوگ اپنے گھروں کو خالی کر رہے ہیں خدانخواستہ اگر کوئی وباء پھوٹ پڑی تو ایک بڑا انسانی المیہ ہو سکتا ہے کیونکہ نہ ڈاکٹرز ہیں نہ ریسکیو ٹیمیں نہ کوئی اور، حکومت بلوچستان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کو ریسکیو ٹیمیں روانہ کرے۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی پریس سکیٹری ایڈووکیٹ امجد خان اچگزئی نے بتایا کہ ایک جانب پشتونوں کی معیشت اور روزگار کا واحد دارومدار زراعت، گلہ بانی اور ان کی زمین و پہاڑ میں پیدا ہونے والی قدرتی جڑی بوٹیوں یا خشک میوہ جات سے وابستہ ہے مگر دو ہفتوں سے پاکستان کے ایک قدیم جنگل میں آگ لگی ہے اور ہزاروں پشتون خاندانوں نے چلغوزے و زیتون کے درخت آگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوتے دیکھ اور بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں مگر وفاق سمیت خیبر پختونخوا، بلوچستان کی حکومتیں اور متعلقہ قومی ادارے بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو ہفتے قبل خیبر پختونخوا کے علاقوں ڈی آئی خان، مغل کوٹ و سابقہ قبائلی علاقوں میں آگ لگی تو پختونخوا حکومت نے خود بجھانے کی کوشش کی نہ ہی بلوچستان حکومت کو اس آگ سے متعلق کوئی اطلاع دی اور آگ اگلے چند دنوں میں بلوچستان میں داخل ہو کر ہر طرف تباہی پھیلانے لگی، اس دوران 13 مئی کو متعلقہ اضلاع شیرانی، موسی خیل، ژوب ڈویژن کے محکمہ جنگلات کے حکام نے صوبائی حکومت کو ہیلی کاپٹرز اور جدید وسائل فراہم کرنے کیلئے خط لکھا جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، دس دن بعد آگ آبادیوں کے قریب پہنچی تو صوبائی حکومت کے ذمہ دار ادارے پی ڈی ایم اے کو ہوش آیا مگر ہیلی کاپٹر آپریشن این ڈی ایم اے کی کاوشوں سے ممکن بنا۔
ایڈووکیٹ امجد خان اچگزئی نے پی ڈی ایم اے کی نااہلی، غیرسنجیدگی اور موثر و بروقت کارروائی نہ کرنے پر اس ادارے کے اعلیٰ حکام کیخلاف کاروائی کا مطالبہ اور شیرانی، موسی خیل، ژوب اضلاع کے محکمہ جنگلات کے ملازمین، لیویز اہلکاروں اور مقامی قبائلیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آگ بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس دوران لیویز و جنگلات کے تین اہلکار بھی شہید ہوئے مگر ان کی خدمات پر سب خاموش بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سابق حکومت نے جہاں دس بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا تھا وہاں انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ان کی صوبائی حکومت اپنے علاقوں کے قدرتی جنگلات میں دو ہفتوں سے لگی آگ بجھانے کیلئے اب تک اقدامات نہ کر سکی بلکہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے، وفاق میں حکومت سے محرومی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکا اور صدمے سے دوچار جنگلات کے ہزاروں سال پرانے درخت جلتا دیکھتے رہے۔
انہوں نے ہیلی کاپٹرز آپریشن کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی اداروں کی جانب سے مزید تاخیر کو غفلت قرار دیا اور ایسی صورت میں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے مدد کی اپیل کی، جبکہ کمشنر ژوب ڈویژن اور ڈویژن کے ڈپٹی کمشنرز و متعلقہ اداروں کی کاوشوں کو زبردست خراج تحسین اور شہید اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
دوسری جانب وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور وفاقی وزیر ہاوسنگ مولانا عبدالوسع نے ہفتے کے روز ژوب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت کی کوششوں سے ایران نے خصوصی جہاز فراہم کر دیا جو آج اتوار کے دن سے کام شروع کرے گا۔
وزیراعلی بزنجو نے کہا کہ کوہ سلیمان میں لگی آگ بجھانے کے دوران شہید ہونے والے تین افراد کے لواحقین کو دس دس لاکھ جبکہ زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں گے، وفاق بھی اعلان کرے گا۔
اس موقع پر سیکرٹری جنگلات دوستین جمال دینی اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر نے کہا کہ شیرانی میں لگی آگ خیبر پختونخوا کے جنگلات سے پہنچی، متاثرین کے لیے پہاڑوں کے دامن میں سو خیموں پر مشتمل سٹی قائم کی گئی ہے جس میں ان کے لئے خوراک اور ادویات کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی کے دو ہیلی کاپٹر اور ایف سی کے ونگ امدادی کاموں میں مصروف ہیں اور اس کے علاوہ فائر بالز، فائر سوٹ، کمبل، خیمے، چٹائیاں اور آگ بجھانے کا دیگر سامان فراہم کیا گیا۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے آگ کا نوٹس لیا اور واقعے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے اور ذمہ داروں کے تعین کی ہدایت کی ہے۔
یاد رہے کہ چلغوزے کے ان جنگلات سے سالانہ 650 سے 675 ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے، 2.6 ارب روپے مالیت کے چلغوزے کی تجارت ہوتی ہے اور اب بھی مارکیٹ میں فی کلو چلغوزہ چھے سے آٹھ ہزار روپے تک فروخت ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے روزگار کا انحصار چلغوزے کے ان جنگلات پر ہے۔ مقامی لوگوں نے لہٰذا مطالبہ کیا ہے کہ جنگلات کے جل جانے سے یہاں پر ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے، حکومت ہمیں متبادل روزگار فراہم کرے۔