گو پاؤں میں دم نہیں مگر ہاتھ سلامت ہیں تو کیا غم ہے
عظمت حسین
محنت کرکے عزت سے کماتا ہوں اور دوسروں کو بھی یہی کہتا ہوں یہ کہنا ہے محمد موسیٰ کا جن کا تعلق بونیر کے علاقے چغرزی سے ہے، محمد موسی معذوری کا شکار ہے۔
چالیس سالہ محمد موسی پاؤں کی بجائے ہاتھوں کی مدد سے چلتے ہیں ان کے پاؤں نہیں ہیں اور دھڑ چھوٹا ہے لیکن ان کا ہمت اور حوصلہ ان کی امید کی طرح قد آور ہے۔
محمد موسیٰ کا تعلق ضلع بونیر کے علاقہ چغرزی کے گاؤں مرادو سے ہے۔ وہ گزشتہ بیس سالسے بونیر کے مرکزی بازار سواڑی میں رہائش پذیر ہے۔ انہوں نے ابتداء سے ہی اپنی جسمانی شناخت سے سمجھوتہ کرتے ہوئے طے کر لیا تھا کہ ان کی کوئی کمی یاکوئی محرومی ان کی ہمت و حوصلہ پہ غلبہ حاصل نہیں کرے گی۔
درزی کا کام سیکھنے کے بعد محمد موسیٰ بارہ سال تک کپڑوں کی سلائی کے کام سے منسلک رہے جبکہ گزشتہ آٹھ سال سے وہ سواڑی بازار میں کپڑے کے ایک دکان میں کام کررہے ہیں تاہم کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ "دکان پر اکثر صحت مند نوجوان افراد بھیک مانگنے آتے ہیں وہ مجھے دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں اور شاید کچھ شرمندہ بھی۔ مجھے کام کرتا دیکھ کر شاید ان کو بھی محنت کر کے کمانے اور کھانے کا خیال آتا ہو۔ محنت کرکے کمانے سے خالق کائنات بھی خوش ہوتا ہے اور بندے کو بھی دلی سکون محسوس ہوتاہے، اسی لئے میر ا یقین ہے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انسان کو محنت کر کے عزت سے جینے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے،” محمد موسیٰ نے کہا۔
محمد موسیٰ نے بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر کوئی بڑے چیلنجز کا سامنا نہیں رہا کیونکہ ان کے آس پاس ان کا خیال رکھنے والے افراد ذمہ داری سے ان کے روزگار کے لیے ان سے وابستہ رہے مگر عوامی جگہوں پر معذور افراد کے لیے سہولتوں کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میٹنگز کی حد تک کہا جاتا ہے کہ ان کے لئے بپلک ٹرانسپورٹ میں سیٹیں مختص کی گئیں ہیں، اڈوں میں خصوصی کرسیاں رکھی گئیں ہیں، تمام عوامی جگہوں پر ریمپ بنائے گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ عوامی جگہوں پر معذور افراد میں سے وہی آتا ہے جس کو گھر سے سپورٹ حاصل ہو یا کوئی اور افراد یا کوئی ادارہ جو ان کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہو وہ انکی مدد کرتا ہو۔ محمد موسیٰ نے مطالبہ کیا کہ اس صورتحال میں حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کے لیے سہولت کا موجود ہونا بہت ضروری ہے جو ایسے افراد کا حوصلہ بندھانے کے لئے لازمی ہے۔
ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر سید بہادر شاہ سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ان کا کام ہے جبکہ اس پر نفاذ یقینی بنانا فیلڈ آفیسر کا کام ہوتا ہے۔
بونیر میں رجسٹرڈ معذور افراد تعداد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بونیر میں تقریباً 8 ہزار سے 9 ہزار تک رجسٹرڈ معذور افراد موجود ہیں جن کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفس وہ واحد مرکز ہے جو معذور افراد کے لیے بہت بہتر کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ ادارہ آج کل خود مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔
ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر سید بہادر شاہ کہتے ہیں کہ وہ انتہائی کم وسائل کے ساتھ کام کررہے ہیں گو کہ خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لئے عمل جاری ہے لیکن فی الحال بہ مشکل یہ ذمہ داریاں نمٹا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہفتے میں دو دن ہم ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈگر میں میڈیکل بورڈ سمیت بیٹھتے ہیں اور ایک ہی چھت تلے، متاثرہ افراد کو معذوری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں اس کے علاوہ ان کا دعوی تھا کہ ان کا دفتر ان افراد کے لیے ہر وقت کھلا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صوبائی حکومت کو سوشل ویلفیئر کمپلکس کے لئے پروپوزل دیا ہے جہاں معذور افراد کے لیے صحت، تعلیم اور کے ساتھ ساتھ کھیل اور سیرو تفریح کے تمام سہولیات ایک ہی چاردیواری کے اندر مہیا کی جائیں گی۔ "یہاں، اس کمپلکس میں معذور افراد اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لا سکیں گ۔ اور آپس میں سماجی روابط بڑھا سکیں گے۔