لائف سٹائل

جنگلات کی کٹائی اور فصلوں پر زہریلے ادویات کا استعمال شہد کی مکھیوں کیلئے خطرے کا باعث ہے

 

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا میں شہد کی مکھیوں کا کاروبار کرنے والے افراد نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں شہد کی مکھیوں کو سنگین خطرات لاحق ہے جس میں جنگلات کی کٹائی، فصلوں پر زہریلی ادویات کا بے دریغ استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ جیسے خطرات شامل ہیں جبکہ ترناب فارم کے حکام کا کہنا ہے کہ زہریلی ادویات میں کمی لانے اور دیگر مسائل حکومت کے نوٹس میں لایا گیا ہے۔

ہر سال دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی جانب سے 20 مئی کو شہد کی مکھیوں کی عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔
خیبرپختونخوا میں شہد کے کاروبار سے جڑے افراد کی تنظیم آل پاکستان بی کیپر ایکسپورٹرز اینڈ شہد ٹریڈرز ایسوسی کے سینئر نائب صدر شیخ گل بادشاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں 15 لاکھ کے قریب افراد شہد کے کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ماحول میں درجہ حرارت میں اضافے اور فصلوں پر زہریلی ادویات کے استعمال سے مکھیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔

گل بادشاہ کے مطابق پاکستان میں شہد کی مکھیوں سے سالانہ شہد کی پیدوار تقریباً 35 ہزار ٹن ہے جس میں 60 فیصد پیدوار خیبرپختونخوا سے ہیں۔ انکی تحقیق کے مطابق ضلع کرک سے پیدا ہونے والے شہد سے ایک ارب روپے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اس کاروبار سے اس وقت مزید افغانی جڑ گئے جب 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور افغانی مہاجر بن گئے جن کی تعداد 60 فیصد تعداد ہے۔
گل بادشاہ نے عوام سے اپیل کی ہے "جنگلات کی کٹائی سے گریز کریں اگر بہت ضروری ہو تو کاٹے گئے درختوں کی جگہ مزید درختیں لگائےی جائے اسی طرح فصلوں پر بے دریغ زہریلی ادویات کا استعمال بند کیا جائے تاکہ مکھیوں کو زندگی ملے جس میں ہماری باقی پوشیدہ ہے”۔

بیشتر اوقات موسم کی گرمائش کی وجہ سے مگھس بان اپنی مکھیوں کی پیٹیوں کو ٹھنڈے علاقوں میں منتقل کر دیتے ہیں لیکن گل بادشاہ کہتے ہیں کہ صوبہ کے اندر ٹھنڈی علاقوں کو مکھیوں کے انتقال پر انتظامیہ ہم سے ضمانتیں لے رہی ہے جس میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور ٹھنڈے علاقے میں مکھیوں کی تاخیر میں مکھیوں کی موت واقع ہوجاتی ہے جس سے مگھس بانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچ جاتا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جنگلات کی کٹائی کے ساتھ فلورا کے درخت مثلاً بیری، سفیدہ، پھلائی اور شیشم کی بقاء کیلئے مضبوط قانون سازی کرے، علاوہ ازیں گزشتہ وفاقی حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبے میں مذکورہ درختوں کے ایک ارب پودے لگانے کا عزم کیا تھا جس کو بھی آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔

زرعی تحقیقاتی ادارے ترناب فارم میں عوام کو شہد کی مکھیوں کو پالنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور تربیت کا دورانیہ مکمل ہونے پر پانچ پانچ بکس بھی دیے جاتے ہیں۔
شہد کو فروغ دینے والے تحقیقاتی ادارے انٹامولوجی دیپارٹمنٹ کے سینئر ریسرچ افسر ڈاکٹر یونس کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں نہ صرف شہد دیتی ہے بلکہ باغات میں پھول سے پھل بننے میں بھی مدد یہیں جس کا فائدہ کاشتکار کو ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یونس کا کہنا ہے کہ انکے مطابق پچاس ہزار روپے سے یہی کاروبار شروع ہوسکتا ہے اور پھر یہ آہستہ آہستہ لاکھوں روپے تک پہنچ جاتیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ریسرچ سنٹر میں نئے نئے تحقیق اور جدید تقاضوں کے مطابق مگھس بانوں کو تربیت دی جاتی ہے۔
انہوں نے تربیت لینے کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا کہ مارچ میں ایک اشتہار کے ذریعے عوام کو رجسٹریشن کیلئے اپیل کی جاتی ہے جن کو مختلف ریسرچ سنٹرز میں تربیت دی جاتی ہے جن میں اب تک ہزاروں مردوں سمیت سینکڑوں خواتین کو تربیت دی گئی ہے۔
مگھس بانوں کی جانب سے عالمی دن کے موقع پر ایک ریلی بھی نکالی گئی جہاں پر شہد کی مکھیوں کو تحفظ دینے اور ماحول کو آلودگی سے بچانے کے نعرے بھی لگائے گئے۔

ریلی میں ترناب فارم کے سینئر ڈائریکٹر مسعود نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ مگھس بانوں کے مسائل پر حکومت کے ساتھ میٹنگز ہوچکے ہیں جس میں انہوں نے انکے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے۔
ڈاکٹر مسعود کا کہنا ہے کہ امسال حکومت نے ریسرچ سنٹر کو لیبارٹریز خریدنے کیلئے فنڈز دئے ہیں جس کا انتظام اب یہاں پر ہوگا جبکہ پہلے یہی مگھس بان اسلام آباد این آر سی میں اپنا شہد صاف کرنے کے لئے جاتے تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button