شیریں ابوعاقلہ: کیا غیرمسلم کی نماز جنازہ جائز ہے؟
حمیرا علیم
11 مئی کو قطری نیوز چینل” الجزیرہ” کی خاتون جرنلسٹ شیریں ابوعاقلہ اسرائیلی فوج کی گولی لگنے سے جاں بحق ہو گئیں۔ یہ اسرائیلی جبر و ستم کا ایک اور ثبوت تھا جو دنیا نے دیکھا اور جس کی مذمت کی گئی۔
اس کے بعد ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں اسرائیلی فوجیوں نے شیریں کے جنازے پہ دھاوا بول دیا اور شرکا کو پیٹنا شروع کر دیا حتی کہ میت والا تابوت بھی ڈگمگا گیا مگر لوگوں نے اسے گرنے سے بچا لیا۔ جنازہ کسی دشمن کا ہو یا آپ کے کسی ہم مذہب کا یا غیرمذہب کا اس کی بے حرمتی کی اجازت کوئی مذہب دیتا ہے نہ معاشرہ۔ مگر اسرائیل ہر طرح کی اخلاقیات سے بالاتر ہے ورنہ وہ جو کچھ فلسطین میں کر رہا ہے وہ نہ ہوتا۔
میرا موضوع نہ تو شیریں کی ہلاکت ہے نہ ہی اسرائیلی بربریت بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ ہمارے فلسطینی مسلمان بھائیوں نے شیریں کے لیے دعائے مغفرت کی اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ مانا کہ شیریں ایک ایسی صحافی تھیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچائی، اسرائیلی بربریت سے دنیا کو آگاہ کیا مگر اس کے صلے میں وہ ایک مسلمان کی طرح دعائے مغفرت اور نماز جنازہ کی حقدار ہو گئیں یہ کچھ عجیب بات ہے۔
قرآن پاک میں جب ابراہیم علیہ السلام اپنے بت پرست زندہ والد کیلئے بخشش کی دعا مانگتے ہیں تو انہیں ان الفاظ میں منع فرمایا جاتا ہے: "پیغمبر اور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراہیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے۔” (سورہ التوبہ 113-114)
جب نوح علیہ السلام اپنے نافرمان بیٹے کیلئے دعا کرتے ہیں تو فرمان ربی آتا ہے: "اور پکارا نوح نے اپنے رب کو کہا اے رب میرا بیٹا ہے میرے گھر والوں میں اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے فرمایا اے نوح وہ نہیں تیرے گھر والوں میں اس کے کام ہیں خراب سو مت پوچھ مجھ سے جو تجھ کو معلوم نہیں میں نصیحت کرتا ہوں تجھ کو کہ نہ ہو جائے تو جاہلوں میں۔ بولا اے رب میں پناہ لیتا ہوں تیری اس سے کہ پوچھوں تجھ سےجو معلوم نہ ہو مجھ کو۔ اور اگر تو نہ بخشے مجھ کو اور رحم نہ کرے تو میں ہوں نقصان والوں میں۔” (سورہ ہود 25-27)
جب ابراہیم علیہ السلام اپنی آنے والی نسل کیلئے دعا فرماتے ہیں تو جواب ملتا ہے: "اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کر دیا۔ فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنا دوں گا۔ کہا اور میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا (البتہ میرا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہو گا)۔” (البقرہ 124)
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مددگار اور مربی، پیارے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کیلئے دعائے مغفرت فرماتے ہیں تو انہیں بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کسی مشرک کیلئے دعا مت کیجئے۔ہاں آپ کے ساتھ حسن سلوک کی بدولت ان کے عذاب میں بس اتنی تخفیف ہو جاے یگی کہ آگ صرف ان کے جوتوں تک رہے گی جس کی گرمی سے ان کا دماغ بھی ابل جائے گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے ہلکا عذاب جہنم میں ابو طالب کو ہو گا وہ دو جوتے پہنے ہوں گے ایسے جن سے ان کا بھیجا پکے گا۔“ (9486-515 صحیح مسلم کتاب الایمان)
اگر صرف رشتےداری، دوستی اور حسن سلوک کی وجہ سے مغفرت ہوتی تو نوح علیہ السلام کا بیٹا، لوط علیہ السلام کی بیوی، ابراہیم علیہ السلام کے والد اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا بخشے جاتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے تمام خاندان کو فرداً فرداً نام لے کر یہ نہ فرماتے کہ اپنے آپ کو بچا لو میرا ساتھ، رشتے داری اور قرابت تمہیں عذاب جہنم سے بچا نہ پائے گی۔ نبیﷺ کو تو منافق عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھانے سے بھی روکا گیا تھا اگرچہ وہ بظاہر مسلمان تھا۔
"اگر آپ ان (منافقوں) کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا۔‘‘ (سورہ التوبہ 80)
"اور ان میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو۔ بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔” (التوبہ 84)
چہ جائیکہ آپ ایک عیسائی کے لیے اس کے مرنے کے بعد دعائے مغفرت کریں۔ ہم اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں ان تمام تباہ شدہ اقوام کے پیروکار ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ قوم شعیب کی طرح ناپ تول میں کمی، قوم لوط کی طرح لواطت میں گم، قوم نوح کی طرح بت پرست، قوم موسی کی طرح کاہل، بزدل، نافرمان، ڈھیٹ، مشرک، قوم صالح کی طرح علماء کے دشمن، قوم عاد و ثمود کی طرح بے حد ماہر مگر متکبر اور جاہل۔ اور پھر بھی ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہم مسلمانوں پہ زوال کیوں ہے؟ ہم تعداد میں اربوں ہونے کے باوجود اس قدر رسوا اور تنکوں سے بھی ہلکے کیوں ہیں؟ مٹھی بھر عیسائی یا یہودی ہم پہ حاوی کیوں ہیں؟
شیریں ابو عقلہ کے جنازے کی ویڈیو ختم ہوئی ہی تھی کہ ایک دوست کی طرف سے میسج ملا جو کہ فارورڈ میسج تھا۔ آخر میں میری دوست نے لکھا تھا اس پہ تبصرہ کر دو۔ میسج خاصا طویل تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی تسلط سے نجات دلانے کیلئے کچھ قرآنی آیات و سورتوں کا ورد شروع کیجئے تاکہ اسرائیل نیست و نابود ہو جائے۔ خود بھی پڑھیے اور دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کیجئے۔
میرا جواب یہ تھا کہ اگر ان وظائف سے دشمنان اسلام تباہ ہوتے اور مسلمان غلبہ پاتے تو انبیاء کرام جیسی نرم دل، حلیم طبع اور شفیق ہستیاں وظائف ہی کرتیں جنگوں کی سپہ سالاری نہیں۔ اصحاب بدر 313 تھے اپنے سے تین گنا بڑے لشکر سے جنگ لڑنے کی بجائے وظائف ہی کر لیتے۔ اگر ہر دور میں قلیل تعداد میں مسلمان دشمن کے کثیر تعداد والے لشکروں پہ فتح یاب ہوئے تو صرف جذبہ ایمانی، توکل اللہ اور اطاعت رسول کی بنا پر۔
آج بھی ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری ابراہیم علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح کریں۔ اطاعت رسول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح کریں۔ قرآن کو وظائف، تعویذ، دلہن کے سر پہ رکھنے، کیلیگرافی میں دیواریں سجانے کی بجائے گائیڈ بک کے طور پہ پڑھ کے اس پہ عمل کریں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح توکل اللہ کریں اور اس یقین سے اپنے دشمن کا مقابلہ کریں کہ آج بھی اللہ تعالٰی ہماری مدد کو فرشتے نازل کرنے پہ قادر ہے۔ آج بھی اللہ تعالٰی ابو سفیان کی طرح دشمن کی عقل ماوف کرنے پہ قادر ہے۔ آج بھی جنگ احد کی طرح ہاری ہوئی جنگ کا پانسہ ہمارے حق میں پلٹنے پہ قادر ہے۔ تبھی ہم اپنا کھویا ہوا مقام اور عزت واپس حاصل کر سکیں گے۔ صرف وظائف، گانے ترانے، دھرنے، مظاہرے، یکجہتی کے اظہار کے لیے دن منانا اور احتجاج کشمیر کو آزادی اور مسلمانوں کو مسجد اقصی واپس نہیں دلا سکتے۔