کافر کوٹ: ڈیرہ کی معاشی ترقی کیلئے امید کی ایک کرن
تحریر سعد سہیل
ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر چشمہ موڑ سے 7 کلومیٹر شمال میں واقع ایک آثار قدیمہ مقام ہے، جس کو ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے، دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے. ان پہاڑوں کی چوٹیوں اور پاس کے علاقوں میں کئی قدیم قلعے، عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے 45 میل شمال کی جانب خیسور پہاڑ کی چوٹی پر بہت سے قلعے، مندر، عبادت گاہیں واقع ہیں، یہ جگہ کافر کوٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ایک وقت میں دریائے سندھ ان پہاڑیوں سے ہو کر گزرتا تھا، پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔ محقق محمد شریف کے مطابق مسلمان اس کو کافر کوٹ کے نام سے پکارتے ہیں، جبکہ ہندو اسے راجہ بل کا قلعہ کہتے ہیں۔
ان خوبصورت ٹیمپلرز کی تعداد 7 کے قریب تھی، خوبصورت تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیے گئے یہ ٹیمپلرز ماضی میں نہایت شاندار رہے تھے جو عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ قلعہ بل کوٹ میں موجودہ پانچ ٹیمپل ہندو شاہی دور میں ساتویں سے نویں صدی عیسوی میں تعمیر کیے گئے، قلعے کی بیرونی دیواریں شمال اور جنوب اطراف میں ابھی بھی موجود ہیں جن میں بڑے بڑے پتھر استعمال کئے گئے ہیں، دیواروں پر ہر 15 سے 20 گز کے فاصلے پر چبرجیاں بنائی گئی ہیں۔ اس کی تعمیر کی خاص بات یہاں کے ٹمپلز کی تعمیر میں شہد کے کھپوں جیسا سوراخ دار کنجور پتھر استعمال کیا گیا ہے جو خیسور میں نہیں پایا جاتا۔
امریکی پروفیسر مائیکل ڈبلومیٹر کے مطابق یہ قلعہ نگارہ فن تعمیر کا حامل ہے جو نندنہ اور ملوٹ ٹیمپلرز کی مانند ہے۔
1997 میں امریکی پروفیسر مائیکل ڈبلومیٹر اور پاکستان ہیریٹیج سوسایٹی کے پروفیسر عبد الرحمن نے ایک نیا ٹمپل E دریافت کیا، پہلے 4 ٹمپلز کو A,B,C,D کا نام دیا گیا، ہر ٹیمپلر دوسرے سے مختلف ہے اور ٹمپلز A, کی موجودہ صورت حال باقی سے بہت بہتر ہے، ٹمپلز کی بنیاد چکور ہے جو اوپر جا کر گنبد نما ہو جاتی ہے، ایک ٹمپل شوالے کی طرز پر اونچے ٹیلے پر ہے جبکہ 2 ٹمپلز ایک دوسرے کے قریب ہیں، ٹمپل D میں صرف مغربی دیوار اور کچھ بنیادی حصہ مشرقی سائیڈ کا بچا ہے اور اس میں 2 کھڑکیاں موجود ہیں اور تمام ٹمپلز کے دروازے مشرق کی جانب ہیں۔
ٹمپلز E دو منزلہ عمارت ہے جس کی چھت منہدم ہو چکی ہے، اس کے آثار نمایاں ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کنارے ایک اور ٹیمپل موجود تھا جسے کنجری والی کوٹھی کہا جاتا تھا اور سڑک کی تعمیر کے وقت اسے گرا دیا گیا۔
علاقہ مکین اسلم خان کے مطابق 1997 کی کھدائی کے دوران ان پتھروں پر مشتمل ایک مورتی ملی جسے پشاور میوزیم لے جایا گیا، مورتی کہ 2 دھڑ تھے جو عورت کی شکل کی تھی۔ قدیمی دور کے یہ مندر راجہ بل نے تعمیر کروائے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک اور قلعہ نند کہ ایک دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا اسی پہاڑیوں میں واقع ہے۔
قیاس یہ ہے کہ کافر کوٹ قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے، سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملے میں راجہ نندپال کو شکست دی تھی۔
آثار قدیمہ کسی بھی علاقے میں تاریخی اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان آثار قدیمہ کی حفاظت اور ان کو محفوظ بنانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
کافر کوٹ قلعہ کے مقام پر پرانی تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے۔ دوردراز علاقوں سے لوگ اور طلباء اس آثار قدیمہ کو دیکھنے آتے ہیں۔ صوبائی حکومت، محکمہ آثار قدیمہ سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی سے درخواست ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سب سے بڑی دلکش آثار قدیمہ کافر کوٹ قلعے کی حفاظت، اس کو محفوظ بنانے اور اس پر توجہ دینے کیلئے اپنا خصوصی کردار ادا کریں تاکہ اس تاریخی آثار قدیمہ کو بچایا جا سکے اور یہاں پر ایک بہترین سیاحتی مقام عوام کو مہیا کیا جا سکے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ان تاریخی مقامات سمیت پورے صوبے میں سیاحت کے حوالے سے مثبت سرگرمیاں شروع کی جائیں تاکہ ان علاقوں میں جو پہلے ہی سے پسماندہ ہیں، یہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں اور وہ سیاحتی علاقے جن کو ابھی تک ایکسپلور نہیں کیا گیا حکومتی سرپرستی اور میڈیا کی مدد سے یہاں مختلف گراؤنڈز، پارک، ریزیڈیشنل ایریاز اور ہوٹلز بنائے جائیں تاکہ یہاں کے لوگ معاشی طور پر خوشحال ہوں، ہماری عوام معاشی طور پر مضبوط ہو اور ملکی معیشت کو بھی اس سے فائدہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ڈی آئی خان ایئرپورٹ کو پھر سے بحال کیا جائے۔
خیبر پختونخوا میں پشاور کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان ایئرپورٹ شمالی و جنوبی اضلاع کیلے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ماضی میں فعال تھا۔ یہ ایئرپورٹ 1969 میں بنایا گیا تھا اور اب ایک طویل عرصہ سے اس کو بند کیا گیا ھے۔ جنوبی پختونخوا کے تمام اضلاع بشمول شمالی و جنوبی وزیرستان کی بیشتر لوگ روزگار کے سلسلہ میں باہر ملک روزی کماتے ہیں، اور زیادہ تر پختون و سرائیکی قومیت کے لوگ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات میں مزدور طبقہ ہیں یا ڈرائیور ہیں، اور ان تمام مسافروں کو آنے اور واپس جانے میں ہمیشہ پشاور، ملتان یا اسلام آباد سے ٹکٹ کرانا پڑتا ہے اور اس کے بعد واپس اپنے گھر تک آنے میں الگ قیام و طعام سمیت ٹرانسپورٹ کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان ایئرپورٹ پر لوکل پراوزیں دوبارہ شروع کی جائیں کیونکہ نہ صرف اس سے ڈیرہ اسماعیل خان کو فائدہ ہو گا بلکہ لکی مروت، بنوں، ٹانک، کلاچی، شمالی و جنوبی وزیرستان، بھکر، دریا خان، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کو سہولت مہیا ہو گی۔
عوامی حلقوں کا حکومت وقت سے اور وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان سے مطالبہ ھے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس ایئرپورٹ کو واپس فعال کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ اس قومی اثاثے سے مستفید ہو سکیں۔