میں مسلمان ہوں
حمیرا علیم
آج کے دور میں اسلام اتنا اجنبی ہو چکا ہے اور بدعات اور غیر مسلموں کے رسوم ہمارے معاشرے میں اتنے رواج پا چکے ہیں کہ اگر کوئی قرآن و سنت کی بات کرے تو اس سے سوال کیا جاتا ہے۔
” آپ کس مکتبہ فکر/ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟” اور اس سے پہلے کہ آپ جواب دیں خود ہی اندازہ لگا کر جواب دے دیا جاتا ہے۔ ” یقینا وہابی یا اہل حدیث ہونگے تبھی ایسا کہہ رہے ہیں۔”
اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ یہ دونوں کونسے فرقے ہیں تو یقین مانیں انہیں ان کی تاریخ کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔میرا مقصد کسی بھی چیز کی تفصیل بتانا یا مسالک کو ڈسکس کرنا نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ میں الحمدللہ صرف ایک مسلمان ہوں جو قرآن و حدیث کو فالو کرتی ہے اور پھر جن علماء کی رائے نص کیمطابق ہو ان کی بات مان لیتی ہے۔
تمام آئمہ کرام علماء تھے انہوں نے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا ایک دوسرے کی امامت میں نمازپڑھی ۔اختلاف رائے کو مہذبانہ انداز میں ظاہر کیا مگر جھگڑا کیا نہ ہی اناکا مسئلہ بنایا۔ ان سب نے بھی قرآن و حدیث ہی کو فالو کیا تھا۔وہ بھی مسلمان ہی تھے کسی بھی صحابی یا عالم دین نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھے مانو مجھے فالو کرو اور عباسی، علوی، حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی بن جاو حتی کہ کسی بھی نبی اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ نوحی، موسوی، عیسوی یا محمدی بن جاو۔ سب نے تعلیم دی کہ مسلمان بن جاو اللہ کی اطاعت کرو اسے واحد رب مانو۔
پھر آج ہم کیوں اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر آپ کسی مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تو مسلمان ہی نہیں ہیں۔اگر آپ نص کا ریفرنس مانگتے ہیں تو علماء کی شان میں گستاخی کرتے ہیں قرآن باربار کہتا ہے۔
"غور کرو تدبر کرو آنکھیں، کان، دماغ استعمال کرو سوچو سمجھو۔ ”
تو پھر میں کیوں ایسی کسی بھی من گھڑت حدیث یا روایت کا یقین کر لوں جس میں کچھ بھی ایسا ہو جو قرآن اور مستند احادیث کیخلاف ہو جس کے آغاز یا اختتام پہ کسی کتاب حدیث کا حوالہ نہ ہو۔ مجھے یہ حکم اللہ نے قرآن میں خود دیا ہے کہ کسی بھی خبر پہ یقین کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کر لوں۔ پھر میں کیوں نہ کسی حدیث یا آیت کا حوالہ مانگوں۔ اگر میں نماز میں رفع یدین کرنا چاہوں، سینے یا ناف پہ ہاتھ باندھنا چاہوں تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ مجھ پہ اعتراض کرے اور وہ بھی ایسا شخص جو نہ تو خود نماز پڑھتا ہو نہ اس نے کبھی قرآن و سنت کامطالعہ کیا ہو اور جب میں اس کے اعتراض کے جواب میں نص کا حوالہ دوں اور اسے اپنی بات رد ہوتی نظر آئے تو اگلا اعتراض یہ کرے۔
” یہ ترجمہ تو تم نے خود سے لکھ لیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔”
میں تو الحمدللہ قرآن و حدیث کی عربی کا ترجمہ سمجھ سکتی ہوں آپ بھی انہیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپکو کیسے علم ہوا کہ میرے قرآن پاک کا ترجمہ غلط ہے۔ سنی سنائی باتوں اور آباو اجداد کا حوالہ مت دیجیے نص کا حوالہ دیجیے کہ سورہ انبیاء، سورہ الاعراف اور سورہ یونس میں بھی اللہ تعالٰی خود فرماتا ہے۔کیا ان کے آباواجداد صحیح تھے یا اللہ تعالٰی اور اگر انکے آباواجداد گمراہ تھے تو کیا پھر بھی وہ انہی کی پیروی کریں گے؟
گزارش صرف اتنی سی ہے کہ فیس بکی علماء کو چاہیے کہ کسی بھی آیت حدیث یا ان سے متعلقہ آرٹیکل پر، کسی مسلمان کے کسی ایسے فعل پر جو قرآن و حدیث کیمطابق ہو، کسی پوسٹ پر تنقید و اعتراض کرنے سے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیجئے پھر اعتراض بھی ان کے حوالے کیساتھ کیجئے ورنہ چپ رہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے۔
” جس چیز سے تمہارا کوئی تعلق نہ ہو اس کے متعلق بات نہ کرو۔” امید ہے آئندہ لوگ ان پوائنٹس کو ذہن میں رکھ کر کسی پہ اعتراض کریں گے۔