نئے افغان مہاجرین: دوسرا پیشہ، اجرت کم اور محنت مشقت زیادہ
باختر ہمت
افغانستان میں گزشتہ سال اگست میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغانوں نے دیگر ممالک کا رخ کیا ہے۔ مختلف ذرائع کے مطابق ملک چھوڑنے والوں میں سے تین سے پانچ لاکھ افغان پناہ گزین ایسے بھی ہیں جو ادھر پاکستان آئے ہیں۔
ان مہاجرین کی اکثریت محنت مزدوری سے وابستہ تھی تاہم ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو افغانستان میں سرکاری یا پھر نجی اداروں میں ملازمت کرتے تھے لیکن پاکستان آنے کے بعد یہ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں کیونکہ اپنے اپنے شعبہ میں انہیں کام بڑی مشکل سے ہی ملتا ہے۔
پشاور ہجرت کر کے آنے والے صوبہ ننگرہار کے رہائشی شبیر احمد جمہوری دور میں سرکاری سطح پر کم و بیش تین سال تک بطور آئی ٹی منیجر ذمہ داریاں نبھاتے رہے لیکن نیا نظام آںے کے بعد جب ان کی تخواہیں رک گئیں اور وہ معاشی مسائل کا شکار ہوئے تو وہ ادھر پشاور آ گئے اور اب یہاں بے روزگار ہیں، ”اُدھر افغانستان میں میرا پیشہ۔۔ اک وزارت کے ساتھ تھا میں، آئی ٹی منیجر یا مدیر کی حیثیت سے، ساڑھے تین سال تک وہاں خدمات انجام دیں، پھر نظام تبدیل ہوا تو تنخواہیں بند ہو گئیں، ہمارے ہاتھ سے وہ نوکری بھی چلی گئی اور ہم ہجرت کر کے ادھر چلے آئے۔”
شبیر کے مطابق وہ گزشتہ دو ماہ سے اس کوشش میں ہیں کہ یہاں پرائیویٹ سیکٹر میں کہیں آئی ٹی منیجر کی جاب ڈھونڈ سکیں لیکن تاحال اس سلسلے میں انہیں کامیابی نہیں ملی جبکہ سرکاری سطح پر انہیں یہ جاب اس لئے نہیں مل سکتی کیونکہ وہ ایک غیرملکی شہری ہیں، ”پاکستان میں اب تک اپنے لئے کوئی روزگار، کوئی کام، کوئی نوکری ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، کوشش کر رہا ہوں، اتنا عرصہ ہوا اسی کوشش میں ہوں کہ اپنے لئے کوئی روزگار ڈھونڈ سکوں، کسی کمپنی یا پرائیویٹ سیکٹر می کہیں اور اپنے لئے ملازمت تلاش کر سکوں لیکن تاحال ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے، چونکہ میں پاکستان کا شہری نہیں ہوں، غیرملک کا باشندہ ہوں اس لئے وہاں جو میرا پیشہ تھا وہ یہاں ممکن نہیں، یہاں گورنمنٹ سیکٹر میں مجھے کہیں ملازمت نہیں مل سکتی اس لئے کوشش کر رہا ہوں کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کہیں کوئی جاب مل جائے۔”
ننگرہار ہی کے ایک اور رہائشی اسماعیل بھی کابل میں ایک وکیل کے ساتھ بطور گارڈ ملازمت کرتے تھے لیکن جب کابل میں نیا نظام آیا تو اس وکیل نے انہیں کابل سے نکلنے کی اجازت دے دی جس کے بعد وہ ادھر پشاور آئے اور اب اک بھٹہ خشت میں ڈرائیور کی نوکری کر رہے ہیں لیکن وہ اپنی اس نئی ملازمت سے مطمئن نہیں ہیں، ”میں تو ایک وکیل کے ساتھ گارڈ تھا، کابل شہر میں، شکر ہے وہاں ہمارا روزگار بہت اچھا تھا لیکن جب حکومت تبدیل ہوئی تو روزگار سارے بہت ہی خراب ہو گئے، اس وکیل نے بھی اپنی طرف سے ہمیں رخصت دی اور کہا کہ آپ چلے جائیں، اس کے بعد ہمارا کام خراب ہوا اور ہم پاکستان چلے آئے، پشاور کے علاقے زاخیل میں ایک بھٹہ خشت میں رہائش ہے، خود میں ایک ڈرائیور ہوں، بھٹہ خشت میں ٹیکٹر چلاتا ہوں، بس اچھا ہے، شکر ہے، تنخواہ بیس ہزار روپے دیتے ہیں جس پر گزارہ تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی بندے کو شکرگزار ہونا چاہئے، مشکلات تو بہت ہیں، ہم بھٹہ خشت میں پڑے ہیں، سخت جگہ ہے، گرمی ہوتی ہے، مچھر بھی ہوتے ہیں، مشکلات بہت ہیں۔”
صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والے محمد ہلال کی کہانی بھی اسی سے کچھ ملتی جلتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ لغمان کے دارالحکومت میں لگ بھگ دس سال تک وہ درزی کا کام کرتے رہے لیکن اب مہاجرت کے بعد یہاں فقیر آباد میں سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں ٹیلرنگ شاپ کھول لیں لیکن مالی مسائل کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں، ”افغانستان میں میری درزی کی دکان تھی، صوبہ لغمان میں، لیکن وہاں مزید کام اچھا نہیں رہا تو اس وجہ سرحد کے اِس پار پاکستان چلا آیا، تقریباً دس سال وہاں اپنا یہ کام کیا، اب یہاں سبزی منڈی میں کام کر رہا ہوں، فردوس پشاور کی سبزی منڈی میں، مشکل یہ ہے کہ ہم یہاں نئے نئے آئے ہیں، یہ سارے کام جو ہوتے ہیں تو پیسے سے ہوتے ہیں، ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ اپنے لئے کاروبار کا بندوبست کریں، اپنے لئے کوئی دکان کرایہ پر لیں، ان وسائل کا انتظام کریں جو درزی کی دکان کے لئے درکار ہوتے ہیں، تاکہ اپنے لئے ہم کوئی کام شروع کر سکیں۔”
واضح رہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پشاور یا ملک کے دیگر حصوں میں اس طرح کے مسائل کا رونا رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مجبور ہیں کہ اپنے پیشے کی بجائے تھوڑے معاوضے پر زیادہ محنت اور مشقت کا کام کریں۔