فریدون، ذکیہ اور پشاور میں مقیم بعض خوش قسمت نئے افغان مہاجرین
نوریہ بازوان
افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ملک میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، افغان پناہ گزینوں کے مطابق ان میں سب سے برا اثر عام افغانوں کی معاشی زندگی پر پڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے نظام میں ان کے لئے زیست روزگار کو جاری رکھنا دشوار ہو گیا اس لئے کاروبار کی تلاش میں بڑی تعداد میں افغان پشاور آئے ہیں جن میں سے بعض نے یہاں وہی کاروبار شروع کر رکھا ہے جو وہ افغانستان میں کرتے تھے۔
ذکیہ ماضی قریب میں ہی کابل سے ہجرت کر کے پشاور آئی ہیں، کہتی ہیں کہ سقوط سے قبل وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی میں ملازمت بھی کرتی تھیں، سلاھائی کا کام کرتی تھیں اب جبکہ وہ پشاور آئی ہیں تو انہیں اپنا وہی کام ادھر بھی ملا ہے جس کی بدولت ان کے گھرانے کی روزی روٹی چل رہی ہے، ”میں افغانستان میں ایک کمپنی کے ساتھ کام کرتی تھی، ان کے لئے کپڑوں کی سلائی کا کام کرتی تھی، جسے وہ بازار میں لے جا کر فروخت کرتے، اور اس کے عوض مجھے کچھ پیسے مل جاتے تھے، یوں میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہی تھی، لیکن جب یہ نئے حالات ابھرے تو اس دوران میں مجبور ہوئی کہ اپنا وطن چھوڑ کر پشاور منتقل ہو جاؤں، پشاور میں کچھ عرصہ بعد میں نے وہی کام شروع کر دیا جو میں افغانستان میں کرتی تھی۔”
ذکیہ کے مطابق وہ اس پر بہت خوش اور یہاں کے عوام کی مشکور ہیں کہ پشاور میں ان کی معاش کا انتظام ہو چکا ہے، ”پاکستان کے عوام خصوصاً خیبر پختونخوا کے پشتونوں اور دیگر لوگوں کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے میرے لئے یہ بندوبست کروایا، تاکہ میں یہاں اپنا کام شروع کر سکوں، اس سلسلے میں انہوں نے میرے ساتھ تعاون کیا کہ میں اپنے ہاتھ کے سلے کپڑے ایک کمپنی کو دے سکوں اور یوں بالکل اسی طرح کچھ کمائی کر سکوں جس طرح میں پہلے کرتی تھی، میں اس سلسلے میں اس شخص کی بڑی شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے ساتھ اس حوالے سے تعاون کیا اور میرے روزگار کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں میری مدد کی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں نیا نظام آنے سے اس ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے جوان جو افغانستان میں سرکاری ملازمت یا نجی کاروبار سے وابستہ تھے انہیں اب بے روزگاری کا سامنا ہے۔ تاہم فریدون ان لوگوں میں سے ہیں جو چند ماہ قبل آئے اور آتے ساتھ ہی برسرروزگار ہوئے ہیں۔
فریدون نے بتایا کہ افغانستان میں اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک سکول میں پڑھاتے بھی تھے جس سے ان کا دانہ پانی چل رہا تھا۔ اور جب سے یہاں آئے ہیں تو اپنی اعلیٰ تعلیم کی بدولت ایک نجی سکول میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ”جب میں سکول کا طالب علم تھا اور جب دیگر جماعتوں کے اساتذہ غیرحاضر یا یمار ہو جایا کرتے تھے، یعنی وہ کلاس نہیں لے سکتے تھے تو پرنسپل مجھے کال کر لیتے کہ میں ان کے ساتھ کلاس لوں، تو میں ان کے ساتھ کلاس لیتا اور انہیں پڑھایا کرتا تھا، اسی پڑھائی کی بدولت مجھے کچھ اعتماد اور تجربہ حاصل ہوا، جب میں سکول سے فارغ ہوا تو میں نے تعلیم کے کچھ مزید مرحلے سر کئے، یعنی مزید تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ بعد میں اسی سکول میں باقاعدہ استاد بھرتی ہوا، اس کے بدلے کچھ پیسے مل جاتے تھے لیکن بعد میں جب افغانستان کی حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت قائم ہوئی تو میں پاکستان چلا آیا، اور یہاں یونیورسٹی می تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حدیبیہ ماڈرن ہائی سکول میں استاد بھی ہوں یعنی افغانستان میں جس طرح تدریس سے وابستہ تھا وہی فرائض آج ادھر بھی سرانجام دے رہا ہوں۔ اور وہ اخراجات جو میں افغانستان میں درس و تدریس کر کے پورے کرتا اسی طرح ادھر بھی پورے کر رہا ہوں۔”
اگرچہ ذکیہ اور فریدون نے خوش قسمتی سے پشاور میں اپنے لئے روزگار کا بندوبست کر رکھا ہے تاہم متعدد مہاجرین اب بھی ایسے ہیں جو جمہوریت کے دور میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات تھے لیکن اب یہاں اپنی شناخت ظاہر نا کرنے کی وجہ سے کوئی دھندہ کرنے سے محروم ہیں۔